اردوڈائرکٹوریٹ کے زیر اہتمام یادگاری تقریب کا انعقاد

پٹنہ: (م ن ع)ادبی دنیا کی عبقری شخصیت سہیل عظیم آبادی کے یوم وفات کے موقع پراردو ڈائرکٹوریٹ کے زیر اہتمام یادگاری تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔اس موقع پر خاص مقررین کی حیثیت سے پروفیسر حسین الحق ،ڈاکٹر قاسم خورشید اور نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار و صحافی سید جاوید حسن نے سہیل عظیم آبادی کی شخصیت ،ان کے فن اور فکر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ ان سے قبل ڈائرکٹر اردوامتیاز احمد کریمی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں سہیل عظیم آبادی کی متعدد اہم تحریر وں کے حوالے سے یہ بتایاکہ سہیل عظیم آبادی کی بعض تخلیقات شاہکار کا درجہ رکھتیں ہیں اور ان میں ہندوستان کادل کی دھڑکتاہوا محسوس ہوتاہے ۔انھوں نے کہاکہ اردو ڈائرکٹوریٹ کے ذریعہ اس طرح کے یادگاری پروگرام کے انعقاد کا مقصدنہ صرف ان کی خدمات کو یاد کر نا ہے بلکہ اپنے عظیم ادیبوں ،شاعروں اور قلم کاروں کی باتوں اور ان کی یادوں کو اگلی نسل تک پہنچانا بھی ہے۔ یادگاری تقریب میں شریک سابق ڈائرکٹر اردو عبد الرحمن سرورنے اردو زبان کی مستقبل کے تحفظ کے ضرورت کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہاکہ وقت کا سب سے تقاضا یہ ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو اس لائق بنائیں کہ وہ سہیل عظیم آبادی جیسے ممتاز ادیبوں کو پڑھ سکیں اور انہیں سمجھ سکیں۔موصوف نے اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں اردو زبان کی بقا اور اس کے فروغ کیلئے کئی اہم مشورے بھی دئے ۔
اس سے قبل اردو کے نامور افسانہ نگار پروفیسر حسین الحق نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سہیل عظیم آبادی نے اپنے افسانوں کے ذریعہ حسن کی نئی تعبیر پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے فن میں سماجی سروکار کے ساتھ انسانی سروکار بھی ملتا ہے ،جس سے فن اپنی بلندی کو پہنچتا ہے۔ سہیل عظیم آبادی اپنے دور کے ایک سرکردہ افسانہ نگار تھے۔ انہوں نے کہا کہ سہیل عظیم آبادی پر گفتگو آسان نہیں ہے۔ وہ سادہ بیانیہ کے موجد اور بانی ہی نہیں بلکہ سادہ زندگی کا ایک خوبصورت اور قابلِ تقلید نمونہ بھی تھے۔ سہیل عظیم آبادی نے اپنے گرد و پیش کی زندگی کو پینٹ کرکے جس حسن اور خوبصورتی سے افسانہ کے پیکر میں پیش کیا، وہ بلاوجہ اور شوقیہ نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد انسانی قدروں کا فروغ اور ایک بہترین معاشرے کی تشکیل ہے۔ اردو کے معروف افسانہ نگار، ادیب و شاعر ڈاکٹر قاسم خورشید نے سہیل عظیم آبادی سے اپنی ذاتی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج بھی عام آدمیوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انہوں نے جو کچھ لکھا، وہ ساحر کے اس شعر کا مصداق ہے
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ڈاکٹر خورشید نے کہا کہ عام طور سے سہیل عظیم آبادی کو پریم چند کا پرتَو سمجھا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اگر ہم ان کے افسانوں کا شعور کے ساتھ مطالعہ کریں گے تو ہمیں دونوں میں کافی فرق محسوس ہوگا۔ ’بے جڑ کے پودے‘ میں سہیل عظیم آبادی نے جس بے باکی اور جرا¿تِ اظہار سے کام لیا ہے، وہ پریم چند کے حاشیہ¿ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سہیل عظیم آبادی نے ڈرامے کے فن کو بھی کافی آگے بڑھایا اور ان کے فیچرس سے ہم لوگوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ جواں سال افسانہ نگار اور صحافی سید جاوید حسن نے سہیل عظیم آبادی کے فن پر ایک تجزیاتی اور تنقیدی مقالہ پیش کیا اور ان کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ وہ اعلیٰ قدروں کے امین و پاسدار تھے۔ مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر پروفیسر توقیر عالم توقیر نے اپنی گفتگو میں سہیل عظیم آبادی کو پریم چند کے اسکول کا بڑا افسانہ نگار قرار دیا اور کہا کہ ان کے افسانے زندگی کے نشیب و فرازسے ہم آہنگ ہیں ۔ وہ ایک بڑے صحافی بھی تھے۔ ابتدا میں انہوں نے شاعری بھی کی، پھر جلد ہی یہ روش ترک کردی۔ آخر میں انہوں نے ڈائرکٹر (اردو) کی فعالیت کی ستائش کی۔ اس موقع پر عذرا فاطمہ، محمد منہاج الدین اور ایمن عبید نے طلباو طالبات کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا اپنا مقالہ کامیابی کے ساتھ پیش کیا ۔انہیں اردور ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے انعام و سند سے نوازا گیا۔
یادگاری تقریب کے آخر میں ایک شعری محفل آراستہ کی گئی ۔ استاد الشعراءجناب ظہیر صدیقی کی صدارت میں منعقد اس شعری محفل میں بشمول صدر محفل منیر سیفی، میر سجاد،منور داناپوری اورتبسم ناز نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا اور خوب دادوتحسین حاصل کئے۔ اس تقریب میں شہر اور بیرونِ شہر کی معزز اور ادبی شخصیتیں شامل ہوئیں ۔ان میں ریاض عظیم آبادی، پروفیسر جاوید حیات، ڈاکٹر شہناز فاطمی، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر شائستہ نوری، ڈاکٹر ابوبکر رضوی، ڈاکٹر سرور حسین، شفیع الزماں معظم، ایسایم شمیم رضوی، معین گریڈیہوی،ڈاکٹر اشرف النبی قیصر، جاوید اختر، عمران صغیر، عقیل صدیقی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔اپنے مقصد میں صد فیصد کامیاب اس یادگاری تقریب کی نظامت کے فرائض محمد نور عالم ،اردو ڈائرکٹوریٹ نے انجام دئے ۔ڈائرکٹر اردو کے اظہار تشکر کے ساتھ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔