اسلام میں عبادت گاہ کی فضیلت واہمیت

محمد علی فیضی، البرکات
اسلا مک انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ
دنیا میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے دلوں میں ان کی عبادت گاہوں کی جو قدر و منزلت ہوتی ہے، وہ اور کسی جگہ کی نہیں ہوتی ، خواہ عیسائیوں کی کلیسا ئیں ہو ںیا ہندؤ ں کی مندریں ہوں، وہ ان کے نزدیک ہر اعتبار سے اعلی ہواکرتی ہیں اسلام نے بھی عبادت گاہ کو خاص اور بلند مقام عطا فرمایا ہے ۔ لیکن مذہب اسلام میں عبادت گاہ کا جو تصور ہے ، وہ دیگر مذاہب سے الگ ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں، جس کا لغوی معنی سجدہ گاہ ہے اور اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو یہ خصوصیت عطا فرمائی کہ مسلمان روئے زمین کی ہر پاک اور غیر نجس جگہ پر مسجد بنا سکتاہے ۔
فقہی اصطلاح میں مسجد اس جگہ کو کہتے ہیں جسے کسی مسلمان نے اپنی ملک سے الگ کر کے مسلمانوں کی عبادت کے لیے وقف کر دیا ہو اور عبادت کے لیے اذن عام دے دیا ہو (خلاصہ یہ کہ مسجد اس مقام کو کہتے ہیں جہاں مسلمان بغیر روک ٹوک کے اللہ کی عبادت کر سکیں)
دنیامیں طرح طرح کی عالی شان بلڈنگیں اورخوبصورت عمارتیں ہیں،لیکن اللہ تعا لی کے نزدیک جو مقام مسجد کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ اللہ تبارک وتعالی مساجد کی تعمیرکرنے والوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے:
ترجمہ: اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکات دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ، تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں ۔(سورہ توبہ آیت ۱۸)
اسی طرح مسجد کے فضائل کے متعلق سرکار دوعالم ﷺ سے بکثرت حدیثیں وارد ہیں، جن میں سے چندیہ ہیں۔
(۱)حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کی رضاجوئی کے لیے مسجد بناتا ہے، اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں گھر بنادیتا ہے اور جو شخص مسجد میں قندیل (چراغ) روشن کرتا ہے ، اس کے لیے ستر ہزار فرشتے اس وقت تک استغفار کرتے رہتے ہیں ، جب تک وہ قندیل روشن رہتی ہے۔(شرح صحیح مسلم ،تقریرات رافعی)
(۲)حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا :’’ میرے پڑوسی کہاں ہیں؟‘‘ فرشتے عرض کریں گے:’’ تیرے پڑوسی کون ہو سکتے ہیں؟‘‘ اللہ تعالی فرمائے گا:’’مسجدوں کو آباد کرنے والے۔‘‘(شرح صحیح مسلم،حلیۃ الاولیاء)
خالق حقیقی نے مسجد میں جس انداز سے جانے کا حکم دیا ہے اس سے بھی مسجد کے فضائل ؂کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے ، اللہ رب العزت قرآن کریم میں فرماتا ہے:
ترجمہ: اے آدم کی اولاد ! اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بے شک حدسے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔(سورۃا لاعراف آیت۳۱)
گویا جب مسجد کے لیے نکلے ، تو نہایت ہی ادب و احترام اور خشوع و خضوع کے ساتھ، باوقار انداز میں نکلے اور دنیاوی خیالات کو چھوڑدے ، تکبر ،غرور اور ریا کاری کے ساتھ نہ جائے، بلکہ اس انداز سے جائے ، جس طرح رعایا بادشاہ کے دربار میں جاتی ہیں۔اور جب داخل ہو جاؤ ،تو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ ان مسجدوں میں ،اللہ کی تسبیح کرو جن کی تعظیم کرنے اور ان میں اللہ کے نام کا ذکر کرنے کا اس نے حکم دیا ہے ان میں صبح وشام ان کی تسبیح کرتے ہیں،۔ایسے مرد جنہیں تجارت خرید وفروخت اللہ کی یاد، نماز قا ئم ر کھنے اور زکات دینے سے نہیں روکتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں انتہائی بے چیں ہو جائیں گے۔(سورۃ النور آیت،۳۵،۳۶)
مسجد کے تقدس اور احترام کی خاطر حرام چیز تو ایک طرف ، نبی اکرم ﷺ نے ایسی حلال چیزیں بھی کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا، جس کی بدبو سے مسلمانوں کو تکلیف ہو، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیاز اور گندنا(ایک قسم کی سبزی، جو لہسن سے مشابہ ہوتی ہے) کھانے سے منع فرمایا ۔ ہم نے ضرورت سے مغلوب ہو کر انھیں کھا لیا ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو ان بدبو دار درختوں سے کھائے، وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، کیوں کہ فرشتوں کو بھی ان چیزوں سے تکلیف ہوتی ہے، جن سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
جذب القلوب الی دیار المحبوب میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ جب مسجد میں کوئی تنکا رہتا ہے، تو مسجد کو اتنی تکلیف ہوتی ہے، جتنی تکلیف انسان کو اس وقت ہوتی ہے، جب اس کی آنکھ میں کوئی ذرہ چلا جاتا ہے۔
آج کل کچھ جگہوں پر خصوصا دیہاتوں میں مسلمان آپس میں فرقہ بندی کا شکار ہوجاتے ہیں اور نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ ایک دوسرے کی موجودگی میں مسجد جانے سے انکارکر دیتے ہیں ا س کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ مسجدیں ویران ہو جاتی ہیں ، یہ اسلام میں سخت منع ہے۔
مسجد کے آداب یہاں تک ہیں کہ اگر کسی کی چیز غائب ہو جائے، تو ان چیزوں کا مسجد میں تلاش کرنا بھی منع ہے، اس لیے کہ یہ آداب مسجد کے خلاف ہے، کیوں کہ مسجد نماز پڑھنے کی جگہ ہے، چیزوں کے تلاش کرنے کی جگہ نہیں ۔جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص بآواز بلند کسی شخص کو مسجد میں اپنی گم شدہ چیز تلاش کرتے ہوئے سنے، تو کہے:اللہ کرے تیری چیز نہ ملے، کیوں کہ مسجد اس لیے نہیں بنائی گئی۔(صحیح مسلم باب النہی عن نشد الضالۃ)
قرآن وسنت اور اقوال فقہا سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ دنیا میں تمام جگہوں سے بہتر اور عظمت والی جگہ مسجد ہے، کیوں کہ یہی وہ جگہ ہے، جہاں سے انسان کو انسانیت کا درس ملتا ہے اور محتاج وغنی، عالم وجاہل ،عابد وگنہگار ایک ہی صف میں کھڑے ہوکراس خالق حقیقی کی بارگاہ میں اپنا سر جھکاتے ہیں، جس نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا:’’ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ‘‘کہ ہم نے جنو ں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں سے بانی اسلامﷺ نے بغیر کسی اخبار ورسائل کے، بغیر کسی ٹی وی چینلوں کے، بغیر کسی ذرائع ابلاغ کے چند ہی دنوں میں اسلام کی شعاؤں کو تقریبا پوری دنیا میں پھیلا دیا اور اسلام نے اپنے چاہنے والوں کو یہ درس دیا کہ اہل زمانہ جتنی بھی ترقی کرلیں ، وہ تم سے زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتے تو ہم پر ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں تبھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں ۔
درس قرآن نہ اگر ہم نے بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
(یو این این)