اقسام القرآن ،قرآن کا اعجاز بیان

کھائی ہے جس میں قلم وکتاب یعنی قرآن حکیم کی قسم، چاند تاروں کی قسم، سورج وشفق کی قسم، فجر کی قسم، جفت راتوں کی قسم، انجیر وزیتون کی قسم، طورِ سینا کی قسم، شہر مکہ کی قسم اور زمانہ کی قسم شامل ہیں، ان کی مجموعی تعداد ۹۹ ہے، یہ قسمیں فصاحت وبلاغت کا شاہکار ہونے کے ساتھ خدائی صنفِ ادب ہونے کی بھی بین دلیل ہیں ، قرآن کی قسموں میں ادب کے مختلف معیار ، موضوعات کی وسعت اور معانی کی ندرت تلاش کرنا چنداں مشکل نہیں، یہاں ایک مثال پیش ہے ، قرآن کہتا ہے۔ قل بلیٰ وربی لتاتینکم عالم الغیب (سورہ سبا ۳)منکرین قیامت جس غرور کے ساتھ قیامت کا انکار کرتے ہیں کہ وہ ہرگز نہیں آئے گی، اسی طنطقہ کے ساتھ پیغمبر کی زبان سے بقید قسم جواب دلوایا گیا کہ ان کو سنا دو ہاں میرے رب کی قسم! وہ تم پر ضرور آکے رہے گی، یہاں رب کی قسم کھانا قرآن کی غیر معمولی فصاحت کا ثبوت ہے، یعنی میرے رب کی قسم جو تمام غیب سے واقف ہے، جس سے آسمانوں اور زمین میں، ذرہ کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں بلکہ ہر چیز ایک واضح رجسٹر میں درج ہے، اس آیت میں علمِ الٰہی کی وسعت کا بیان بھی نہایت بامعنی انداز سے منکرین کی تہدید کے مقصد سے کیا گیا ہے کہ وہ چوکنے ہوجائیں۔ اس ڈھٹائی سے جو وہ قیامت کے انکا رمیں کررہے ہیں۔اور یاد رکھیں وہ نہ صرف آئے گی بلکہ ہر ایک کو قول وعمل کا، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، حساب بھی دینا ہے، ساتھ ہی اس میں ایک مغالطہ کا ازالہ بھی ہے، وہ یہ کہ منکرین کے نزدیک قیامت کے نہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے اتنی وسیع دنیا کے ایک ایک شخص کے ہر ایک قول وفعل کا علم کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سب کا حساب کرنے بیٹھے گا۔‘‘ (تدبر قرآن ۶/۲۹۲)یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف ادبی پیرایوں کے ساتھ اعراف ۱۸۷، طٰہٰ ۱۵، لقمان ۳۴، احزاب ۶۳، ملک ۲۵ تا ۲۶ اور نازعات ۴۲ تا ۴۴ میں بھی بیان ہوا ہے لیکن سورہ سبا کی مذکورہ آیت ایک انفرادی شان کی مالک ہے جس کو اہل نظر سمجھ سکتے ہیں۔ قسم میں قول کی پختگی اور تاکید کی جو ضرورت پیش آتی ہے اس کی اعلیٰ مثال قرآن حکیم کی قسمیں ہیں، مثال کے طور پر سورۃ الطارق کی آیت ۱۱ تا ۱۴ ملاحظہ ہو والسماء ذات الرجع ، والارض ذات الصدع، انہ لقول فصل، وماھو بالھزل یعنی اور قسم ہے آسمان پرنگار اور زمین پر شگاف کی کہ یہ دوٹوک بات ہے اور ہنسی مذاق نہیں ہے۔ قرآنی قسموں کی دوسری خصوصیت ان کا طرز اظہار یعنی انشاء ہے جس کی تردید نہیں کی جاسکتی کیونکہ اکثر جگہ وہ خبر کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ لہذا نفسِ قسم کا انکار کرنا آسان نہیں ہوتا جیسا کہ والقرآن المجید، والیوم الموعود، فالمقسمٰت امرا، فاالفارقات فرقا، والصافات صفا ، ان جملوں کی اگر تشریح کی جائے تو ہر جملہ خبر کی شکل میں ڈھل جائے گا جیسا کہ مولانا فراہیؒ نے تحریر کیا ہے:’’والصافات صفا کا مطلب ہوگا ملائکہ غلاموں کی طرح صف بستہ ہیں، فالمقسمٰت امرا اور فالفارقات فرقا کا مطلب ہوگا کہ ہوائیں خدا کے حکم سے فرق وامتیاز کرتی ہیں۔ والقرآن المجید کا مطلب ہوگا کہ یہ قرآن برتر کلام ہے، والیوم الموعود کا مطلب ہوگا کہ ان کے محاسبے کے لئے ایک روز مقرر ہے، پس یہ گویا خبریں ہیں جو صافات اور فارقات وغیرہ کے اندر چھپادی گئی ہیں اور نیز چونکہ قسم کا اسلوب ہے اس لئے ان اشیاء کا شہادت اور دلیل ہونا مزید برآں ہے اور اس پہلو سے گویا اس میں دوہری خبریں چھپی ہوئی ہیں۔یہاں یہ نکتہ بھی قابل لحاظ ہے کہ جہاں کہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ مخاطب ہوشیار ہوکر انکار کا ترکش سنبھالے گا وہاں یا تو خطاب کا رخ آنحضرت کی طرف پھیر دیا جاتا ہے، مثلاً یٰسن والقرآن الحکیم، انک لمن المرسلین (یٰسن ۱۔۲) (قرآن حکیم کی قسم تم خدا کے فرستادوں میں سے ہو) یا جواب قسم کو، جس کا جملہ خبریہ کی شکل میں ہونا ناگزیر ہے، حذف کردیا جاتا ہے اور صرف قسم بہ پراکتفا کرکے اس کے بعد کوئی ایسی بات لائی جاتی ہے جو محذوف پر دلیل ہو، تاکہ مخاطب کو اتنی فرصت ہی نہ ملے کہ وہ انشاء کو خبر کی صورت میں ڈھال کر اس کے تردید وانکار کے لئے آمادہ ہو۔ اس وقت وہ قسم کے بعد کی بات سننے کے لئے کان لگاتا ہے تاکہ اس کی تردید کرسکے لیکن دفعتاً اس کے سامنے ایک ایسی بات آجاتی ہے جس کا مقصود اس استدلال کو قوت پہونچانا ہوتا ہے جو سابق کلام میں پیش نظر تھا، مثلاً: ص، والقرآن ذی الذکر بل الذین کفروا فی عزۃ وشقاق (ص ۱۔۲) (پرنصیحت قرآن کی قسم، بلکہ کافر گھمنڈ اور عناد میں مبتلاء ہیں) اس آیت میں جملہ انشائیہ پر اکتفا کیا، جملہ خبر یہ نہیں لائے۔ قسم کے ساتھ جو صفت مذکور تھی گویا وہی خبر کی قائم مقام ہوگئی یعنی پوری بات یوں ہوئی کہ قرآن مجید شاہد ہے کہ وہ ان کے لئے یاد دہانی اور نصیحت ہے۔‘‘ اس کے بعد ان کے بعض ایسے خصائل کا ذکر کیا گیا جس سے ان کو انکار نہیں تھا بلکہ ان پر فخر کرتے تھے اور واضح کردیا کہ ان کا یہ اعراض محض حمیت جاہلیت اور عناد کا نتیجہ ہے۔اسی سے مشابہ سورۂ ق کی قسم ہے ۔ ق والقرآن المجید، بل عجبوا ان جاء ھم منذر منھم فقال الکافرون ھذا شئی عجیب (۱۔۲) (قرآن بزرگ کی قسم، بلکہ ان کو تعجب ہے کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ہوشیار کرنے والا آیا۔ پس کافروں نے کہا یہ تو ایک عجیب چیز ہے) یعنی قرآن مجید شاہد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت کھلے لفظوں میں بعث کی خبر دینے والا ہے لیکن وہ صرف اس وجہ سے اس کے منکر ہیں کہ ان کی نظر میں یہ بات عجیب ہے کہ اس کی خبر دینے والا انہیں کے اندر کا ایک آدمی ہے۔ہاں اگر قسم ایسی ہے کہ مخاطب کو اس سے انکار نہیں ہے تو ایسے مواقع پر جواب قسم کو حذف نہیں کیا گیا ہے، مثلاً : حم والکتاب المبین، انا جعلنٰہ قرآناً عربیا لعلکم تعقلون (الزخرف۱۔۳) (شاہد ہے واضح کتاب، بلاشبہ ہم نے بنایا اس کو عربی قرآن تاکہ تم لوگ سمجھو) اس میں قسم کے ساتھ واضح اور کھلی ہوئی ہونے کا ذکر کیاگیا ہے، اور جواب میں اس کے قرآنِ عربی ہونے کا ذکر ہے اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن سے کسی کو انکار نہیں تھا۔ پھر لطف یہ ہے کہ یہاں قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے کو علاحدہ دعوے کی شکل میں نہیں پیش کیاگیا ۔ کیونکہ یہ بات خود کلام کے اندر مضمر ہے جبکہ اس نے کلام کو اپنی طرف منسوب فرمایا، اس کا فائدہ یہ ہے کہ انکار کی طرف مخاطب کو توجہ نہیں ہوسکتی۔’’اس اسلوب کی تیسری خوبی استدلال کے لئے اس کی موزونیت ہے۔ اس اسلوب میں اختصار ہوتا ہے اور جب الفاظ کم ہوں تو مفہوم تمام حجابات سے مجرد ہوکر سہولت سے سامنے آجاتا ہے اور اس سے مضمون کی تاثیر اور زور میں اضافہ ہوجاتا ہے ‘‘ (اقسام القرآن‘‘ ۱۰۲) قرآن کے ادبی مرتبہ کی جستہ جستہ کچھ اور مثالیں پیش ہیں۔ نکتم شہادۃ اللہ (سورہ المائدہ ۱۰۶)یعنی جس بات کے بیان کرنے پر ہم اللہ کی طرف سے مامور ہیں، عظمت الٰہی کے استحضار اور خشیتِ شہادت کو شہادت اللہ سے تعبیر کرکے اس کی کتنی اہمیت بڑھا دی گئی۔ لعمرک (سورہ الحجرات ۷۲)’’عمر اور عمر عربی میں ہم معنی ہیں لیکن قسم کھانے کے موقعہ پر عمر ہی آتا ہے، یہاں ۔ل قسم کا ہے عربی اسلوب بلاغت میں قسم ایک ادبی صنعت وفنکاری ہے اور بہترین ادیب وشاعر اس سے حسبِ موقع آزادی سے کام لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی قسمیں مذاقِ عرب پرگراں نہیں گزریں اور جو اہل زبان مخالفت میں غرق اور اعتراض ونکتہ چینی کے لئے تلے ہوئے بیٹھے تھے ان میں سے کسی نے یہ نہ پوچھا کہ خدا کے کلا م میں یہ مخلوقات کی قسمیں کیسی؟ اور قسموں کے فلسفے یا ان کی توجہاتِ عقلی پر توجہ صرف عجمی اور ہندی اہل علم نے شروع کی۔ تاللہ (سورہ النحل ۵۶)’’موقع تحدید پر صیغہ ایک طرف تو غائب سے مخاطب ہوا اور دوسری طرف متکلم سے، غائب کا ہوگیا ’تاللہ‘ زورِ تاکید کے موقعہ پر قسم کا لانا عربی اسلوب بیان کی ایک صنعت ہے ’تاللہ‘ حرف قسم کا ’ت‘ کے ساتھ لانا لفظ اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہے لتسئلن یہاں باز پرس سے مواخذہ حشر مراد ہے۔سورۃ الزخرف، سورۃ ق اور سورۃ طور وغیرہ میں ’و‘ کا استعمال قسم کے مفہوم میں ہوا ہے اور قسم عربی میں شہادت کے لئے آتی ہے جیساکہ ذیل کی عبادت سے ظاہر ہوتا ہے: ’’مطلب یہ ہے کہ یہ پرحکمت قرآن جو تم لوگوں کو سنا رہے ہو خود اس بات کی شہادت کیلئے کافی ہے کہ تم رسو ل کے زمرے سے تعلق رکھنے والے ہو، رسول کے سوا کوئی دوسرا اس طرح حکیمانہ اور معجزانہ کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہے۔