اقلیتی ادارے میںہورہاہے مسلم بچوں کا ذہنی اور جسمانی استحصا ل ؟

Taasir Urdu News Network Saharanpur (UP) | Updated 3 Sept 2016, 6:27 PM IST

سہارنپور (تجزیاتی رپورٹ احمد رضا) ڈگری کالجوں میں آج بھی کمشنری کے ہزاروں درجہ بارہ پاس مسلم لڑ کے اور لڑکیاں بی اے ، بی کام اور بی ایس سی میں اپنے داخلوں اور زیادہ فیس وصولے جانے کے نتیجہ میںداخلہ نہی لے پانے کی خاطر در در بھٹکنے اور کالجوں کے چکر لگانے کو مجبور ہیں مگر ریاست کے کسی بھی مسلم وزیر، ممبر لوک سبھا اور ممبر اسمبلی کا ضمیر اتنا بھی بیدار نہی کہ وہ روزانہ اخبارات کی سرخیان بننے والی مسلم طلباءکی دقتوں پر توجہ دے پائیں ہمارے سہارنپور شہر میں ایک ہی ڈگری کالج اسلامیہ ڈگری کالج کے نام سے گزشتہ کئی سالوں سے تعلیمی سیشن جاری رکھے ہوئے ہے مگر اس کالج کا منیجر انوار احمد نام ہونے کے بعد بھی لاچار مسلم بچیوں تک کی بات سننا تو دور ان بچیوں کے وارثان کا اپنے ملازمین سے کھنچواکر آفس سے باہر کرانے میں اپنی بڑائی اور قابلیت مانتاہے اسلامیہ انٹر کالج کے پرنسپل بھائی جلال عمر قابلیت کی حدود سے زیادہ قابل ہونے کے باوجود بھی انکی بیہودہ حرکتوں کو لگاتار برداشت کرنے کو مجبور ہیں اس منیجر نے.

گزشتہ سال ڈسٹرک انسپکٹر آف اسکول سے ملی بھگت کرکے اسکول میں جو درجن بھر تقرریاں کی ہیں ان سبھی میں پندرہ لاکھ فی امیدوار لیکر اور قابلیت کا درکنار کرتے ہوئے تقرریا ں کی ہیں اس کی بابت کتنے ہی معاملا ریاست کی مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں اتناہی نہی اس منیجر نے فرعونیت کی حدود کو پار کرتے ہوئے اسلامیہ ڈگری کالج میں موٹی رقم وصول کرتے ہوئے سیکڑوں مسلم امیدواروں کو در کنار کرتے ہوئے ایک برہمن امیدوار ڈاکٹر آر کے شرماکو اپنے ڈگری کالج کا پرنسپل مقرر کیا ہے جبکہ آج بھی اس شہر میں سیکڑوں مسلم لڑکیاں اور لڑکے اس پرنسپل سے زیادہ قابل موجود ہیں! قابل ذکر ہے کہ امسال کے تعلیمی سیشن کےلئے موجودہ انتظامیہ کمیٹی نے نئے پرو پیکٹس بھی نہی چھپوائے بلکہ سیکڑوں بچوں کو ایک سو پچاس فی کس کی در سے سیشن ۴۱۰۲۔ ۵۱۰ ۲ کے ہی پرو پیکٹس فروخت کرئے گئے ہیں اور پانچ ہزار پانچ سو روپیہ جمع کئے جانیکے بعد رسید صرف چار ہزار پانچ سو روپیہ کی ہی دیجارہی ہے اس سے بڑی بد عنوانی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے ،عام رائے ہے کہ ایسے لوگ اقلیتوں کا مستقبل بگاڑنے کی مسلم مخالف عالمی سازش کا ہی ایک حصہ ہیں جو مسلمان ہونے کے بعد بھی قوم کا مستقبل برباد کر رہے ہیں ؟

سول کورٹ کے سینئر وکیل شہزاد خان فرید احمد، محمد علی، جنید خان سروہہ، ایم عاقل، منظر کاظمی، ناصر زیدی، عارف میاں اور منور آفتاب جیسے قابل قدر وکلاء کا کنہاہےکہ اسلامیہ ڈگری کالج کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کےلئے مفاد پرستوں اور موقع پرستوں کو علیحدہ کرکے نیا تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کیا جانا قوم کے بچوں کے سنہرے مستقبل کےلئے بہت ضروری ہوگیاہے! سینئر سوشل قائد اور کالج انتظامیہ کی مفاد پرستانہ روش کے خلاف کتنے ہی مقد مات کی پیروی کرتے آرہے بھائی جنید خان سروہاکا الزام ہے کہ یہ کالج انٹظامیہ مسلم قوم کے بچوں کے استحصال کا رجسٹرڈ مرکز ہے یہ انتظامیہ گزشتہ چھ سالوں سے پچاس لاکھ سے زیادہ کی قومی رقم خرد برد کر چکی ہے اور ہر بچہ سے بی اے فرسٹ ایئر کی فیس مع داخلہ چھ ہزار کھلے عام کتنے ہی سالوں سے وصول کی جارہی ہے جبکہ دیگر کالجوں میں یہ فیس صرف ایک یا دوہزار سے زیادہ نہی ہے اسکے علاوہ بچوں سے وصولے جانے والے دیگر فنڈس بھی انتظامیہ کمیٹی خد ہی ہڑپتی آرہی ہے جنید سروہہ نے سبھی الزامات کی سی بی سی آئی ڈی جانچ کی مانگ سرکار سے کی ہے آپ غور کریں کہ کہنے کو یہ اقلیتی ادارہ ہے مگر یہاں کے خرچ ہائی پروفائل اسکول کی طرح ہی ہیں!لاچار، پسماندہ، پچھڑے اور غریب مسلم بچوں کے لئے اس کالج میں کوئی جگہ نہی ہے بس یہاں تو پیسہ کی زبان کوہی سنا اورپہچاناجاتاہے! کالج میں آج داخلہ کا آخری دن تھا تو آپکو بتادیں کہ کالج منیجر کی فرعونیت کے سبب فیس میں رعایت نہی ہوپانے کے نتیجہ میں چالیس فیصد مسلم طلبہ اور طالبات نے ادھر ادھر سے بہ مشکل فیس کی رقم جمع کرکے آج اپنی پانچ سے چھ ہزار تک فی کس کی در سے فیس ادا کرتے ہوئے فارم داخلہ جمع کئے ہیں اس بابت جب ضلع کے چند ذمہ داران رہنماﺅں سے بچوں نے سفارش کی تو سبھی نے یہ کہاکہ منیجر سے ملو پرنسپل شرما سے معلومات کی تو انہونے کہا کہ ہم تو پرنسپل ہے کالج میں ہوا بھی منیجر کی اجازت سے ہی داخل ہوتی ہے اسکے برعکس اسلامیہ انٹر کالج کے پرنسپل جلال عمر نے دو مسلم بچوں کی فیس معافی کی سفارش کی تو اسمیں سے بہ مشکل ایک ہزار کی چھوٹ دے دیگئی ہے جبکہ دیگر سیکڑوں بچوں اور انکے سرپرستوں کو منیجر اور پرنسپل کے دفتروں کے باہر روتے بلکھتے ہوئے دیکھا گیاہے!