برین سیل تھیراپی پارکنسن کے لیے امید کی کرن

سائنسدانوں کا کہنا ہے انھوں نے پارکنسن کے علاج کا ایک ایسا طریقہ دریافت کیا ہے جس سے اس بیماری کو دور کیا جا سکتا ہے۔ برین سیل تھیراپی کے ذریعے پارکنسن کا علاج دماغ کے خراب خلیوں کو متبادل خلیوں سے بدل کر کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے تحت انسانی ذہن کے خلیوں کو اس بات کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے کہ وہ پارکنسن کے مرض کے سبب خراب خلیوں کا کام سنبھال لیں۔ پارکنسن جیسی علامات سے دوچار چوہوں میں جب اس طریقہ علاج کا استعمال کیا گیا تو ان کی حالت میں بہتری آئی۔ تاہم انھوں نے کہا کہ انسانوں پر تجربہ کرنے سے پہلے ابھی اس بارے میں مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔ یہ تحقیق ‘نیچر بائیو ٹیکنالوجی’ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ابھی بہت ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن اس سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ سائنسدانوں کو ابھی یہ بھی معلوم کرنا باقی ہے کہ آیا یہ طریقہ علاج محفوظ ہے اور کیا تبدیل شدہ خلیے جو ایسٹرسائٹس کے طور پر زندگی میں آئے تھے وہ ڈوپامائن خلیے کی طرح کام کر سکیں گے اور وہ نیورون پیدا کر سکیں گے جو کہ پارکنسن کے مرض میں ختم ہو گئے۔ خیال رہے کہ پارکنسن کے مریضوں میں ڈوپامائن کی کمی ہو جاتی ہے کیونکہ ان کو بنانے والے دماغ کے خلیے مر چکے ہوتے ہیں۔ ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ ان خلیوں کی موت کے اسباب کیا ہیں لیکن ان کی کمی کے سبب کمزوری کے آثار نمایاں ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں رعشہ پیدا ہوتا ہے اور چلنے پھرنے یا حرکات و سکنات میں مشکلات آتی ہیں۔ ڈاکٹر علاج کے طور پر ایسی دوائیں دیتے ہیں جو ان کی علامات کو منظم کرنے میں مدگار ہوں لیکن ان کے اسباب کا علاج نہیں کرسکتے۔ سائنسدان ایک عرصے سے خراب ڈوپامائن خلیوں کی جگہ دماغ میں انجیکشن سے نئے خلیے ڈالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے اپنی تازہ ترین تحقیق میں ایک ایسے طریقے کا استعمال کیا جس میں خلیوں کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت نہیں۔ اس کے بدلے انھوں نے چھوٹے چھوٹے مولیکیولز کے ایک ایسے مرکب کا استعمال کیا جس سے دماغ میں موجو خلیوں کو ری پروگرام کیا جا سکے۔ جب انھوں نے انسانی ایسٹروسائٹس کے مرکبات کا اپنی لیب میں ایک کاک ٹیل بنایا تو اس سے ایسے خلیے بنے جو کہ ڈوپامائن نیورون کا ہوبہو متبادل نہیں لیکن اس سے بہت مشابہ تھے۔ اس کے بعد انھوں اس کاک ٹیل کو بیمار چوہوں کو دیا اور یہ ایسا لگا کہ اس علاج نے اپنا اثر دکھایا اور دماغ کے خلیوں کو ری پروگرام کیا جس سے پارکنسن کی علامات میں کمی واقع ہوئی۔ یونیورسٹی آف ریڈنگ میں نیوروسائنس کے ماہر ڈاکٹر پیٹرک لوئس نے کہا کہ ‘یہ پارکنسن کے علاج میں گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔’ تاہم انھں نے کہا کہ ‘انسانوں میں ایسا کر پانا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔’ یوکے پارکنسن کے پروفیسر ڈیوڈ ڈکسٹر نے کہا: ‘اس تکنیک میں مزید فروغ کی ضرورت ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوتی ہے تو اس سے پارکنسن کے مرض میں مبتلا افراد کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے اور بالآخر یہ ان لاکھوں افراد کے لیے علاج ہو سکتا ہے جو اس کے انتظار میں ہیں۔’