ترکی میں تختہ پلٹنے کی کوشش ناکام،250 ہلاک

انقرہ،16جولائی؍(آئی این ایس انڈیا)ترکی کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حکومت نواز ملکی فورسز نے دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ بغاوت کو ناکام بنانے کی کارروائی کے دوران 250ہلاک اور1100 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ترک وزیراعظم کے مطابق 2800سے زائد فوجی حراست میں لیے جا چکے ہیں۔ہلاک شدگان میں باغی فوجی,پولیس اہلکار اور عام شہری شامل ہیں۔ اسی دوران مغوی بنائے گئے فوج کے سربراہ کو بھی رہا کرا لیا گیا ہے۔ فوجی ہیڈکوارٹرز کے بعض حصوں میں باغی فوجیوں کے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی مزاحمت جاری ہے۔ اعلیٰ فوجی اہلکار کے مطابق ابھی بھی کچھ فوجی ہیلی کاپٹرز باغیوں کے استعمال میں ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ باغیوں کے قبضے میں کوئی جنگی طیارہ نہیں ہے۔ دوسری جانب پارلیمنٹ اور صدارتی محل پر حملوں کا سلسلہ بھی تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد 29کرنل اور پانچ جنرل برطرف کر دیے گئے ہیں۔بغاوت کا حصہ بننے والے 1500فوجیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک امن کونسل اب ملک کا نظام چلائے گی۔استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ترک صدر رجب طیب اردوغان بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ملک سے بغاوت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ترکی میں فوج کی جانب سے بغاوت کی کوشش کی مذمت کی ہے۔نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں ترکی کے عوام کا بھرپور کردار قابلِ ستائش ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ ہے اور اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور عوام کے ساتھ ہیں۔انقرہ میں واقع ملٹری ہیڈ کوارٹرز کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ ہیڈ کوارٹرز کے ارد گرد کے علاقے کو کلیئر کیا جا رہا ہے۔دوسری جانب قائم مقام آرمی چیف نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ باغی فوجیوں نے کئی فوجی کمانڈرز کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ترک صدر طیب اردوغان کے دفتر نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شام کو سڑکوں پر نکلیں۔صدر کے دفتر سے کیے گئے ٹویٹ میں کہا گیا ہے اس بات سے قطع نظر کہ بغاوت کس مرحلے پر ہے ہمیں آج شام کو سڑکوں نکلنا ہو گا۔ نئی بغاوت کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ترکی کے قائم مقام آرمی چیف کا کہنا ہے کہ باغیوں کے 104رہنماؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔اس سے قبل ترکی کے حکام نے کہا تھا کہ باغیوں کے ساتھ جھڑپوں میں 90افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ قائم مقام آرمی چیف کے بیان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ان 90افراد میں پولیس اہلکار اور عام شہری ہی ہیں۔ترکی کے حکام ملک کو جلد از جلد معمول پر لانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ وہ ہوائی اڈوں، پُلوں اور سڑکوں کو دوبارہ کھولنے میں مصروف ہیں۔ ٹینک کے گولوں سے پارلیمنٹ کی عمارت کو شدید نقصان ہونے کے باوجود ممبران غیر معمولی اجلاس کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ 1500سے زیادہ باغیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بغاوت کرنے والوں کے 16رہنماؤں کو ملٹری ہاڈ کوارٹرز میں جھڑپوں کے دوران ہلاک کر دیا گیا۔ترکی کے ریسرچر مائیکل روبن کا کہنا ہے کیا بغاوت ناگزیر تھی؟ نہیں لیکن جنھوں نے بغاوت کی ان کا سوچنا یہ تھا کہ وہ ترکی کو عوام سے دور اور نظریاتی لیڈرشپ سے بچا رہے ہیں۔ اردوغان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ترک عوام کے لیے حکومت کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔انھوں نے معیشت کو بہتر کرنے کا وعدہ کیا لیکن بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے، کرنسی غیر مستحکم ہے۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں امن لائیں گے لیکن ان کی جارحانہ پالیسیوں نے ترکی کو مشرق وسطیٰ میں تنہا کر دیا اور مغرب سے تعلقات خراب کیے۔اردوغان نہ سکیورٹی کا وعدہ کیا لیکن ترک عوام کا خیال ہے کہ حالیہ دھماکے محض شروعات ہیں۔ دوسری جانب بغاوت کرنے والوں کا شاید خیال تھا کہ اردوغان اپنے آپ کو مستحک کر رہے ہیں اور یہ ان کے پاس آخری موقع ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ترکی میں موجود صحافی ایلو سکوٹ نے ایک پیغام ٹویٹ کیا ہے جو ان کے بقول صدر طیب اردوغان نے لوگوں کو بھیجا تھا۔ اس پیغام میں صدر نے عوام سے حکومت کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی۔انقرہ کے فوٹو گرافر پیرو کسٹیلانو نے بی بی سی کو بتایا کہ عوام اس وقت سڑکوں پر آئی جب صدر اردوغان نے ٹی وی پر لوگوں سے حمایت کی اپیل کی۔لوگ مرکزی سکوائر کی جانب روانہ ہو گئے اور ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے سامنے آئے اور پھر خونریزی ہوئی۔اس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ عوام اور فوج کے درمیان گہرے روابط ہیں یا کم از کم کل رات تک تھے۔ اسی لیے لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب فوج نے لوگوں پر فائرنگ کی۔ترکی کی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملٹری پولیس کمانڈ میں جھڑپوں کے دوران 16باغی فوجیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔اناتولو کے مطابق ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں 200غیر مسلح فوجیوں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیا۔