تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے خواتین کی بچہ دانی تیار

شکاگو: تھری ڈی پرنٹر ٹیکنالوجی سے کم وقت میں خوبصورت اور پائدار اشیاء4 بنانا اب ناممکن نہیں رہا، جہاں پہلے اس ٹیکنالوجی کی مدد سے عمارتیں، ہتھیار، زیور اور برتن تیار کیے جا چکے ہیں، وہاں اب اس ٹیکنالوجی کا استعمال طب میں بھی کیا جانے لگا ہے۔ تھری ڈی پرنٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلے مصنوعی ہاتھ اور پاؤں بھی تیار کیے جاچکے ہیں، تاہم اب امریکی ماہرین نے اس کے ذریعے بانجھ پن کا شکار خواتین کے لیے مصنوعی بیضہ دانی تیار کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ امریکی شہر شکاگو میں موجود ناردرن ویسٹ یونیورسٹی کی ماہر خواتین کی ٹیم نے تھری ڈی پرنٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی بچے دانی تیار کرلی ہے، جسے بانجھ پن یا کینسر جیسے مرض کی شکار خواتین کے اندر لگایا جاسکے گا۔ سائنس جنرل نیچر میں گزشتہ ہفتے شائع ایک مضمون کے مطابق اس بیضہ دانی کو ’ماؤس بیضہ دانی‘ کا نام دیا گیا ہے، مگر اس پر مزید کام ہونا ابھی باقی ہے۔ ماؤس بیضہ دانی تیار کرنے والی ماہر خواتین نے بتایا کہ اس بیضہ دانی میں وہ سارے اعضاء4 ، ٹشوز اور وہ خاصیتیں رکھی گئیں ہیں، جو ایک خاتون کی بیضہ دانی میں ہوتی ہیں۔ ماہرین نے بتایا کہ اس بیضہ دانی کو ایک خاص سیاہی (انک) کی مدد سے بنایا گیا ہے، جسے ’جیلسن‘ کہا جاتا ہے، جو مختلف جانوروں کے جسم کے اعضاء4 کے گوشت اور خون سے لیے گئے اجزاء4 سے تیار کی جاتی ہے۔ ماہرین نے بتایہ کہ تھری ڈی بیضہ دانی پرکام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے،بیضہ دانی تیار تو کرلی گئی ہے، مگر اسے انسان میں داخل کرنے کے لیے ابھی کام کرنا باقی ہے۔ ماہرین نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں یہ بیضہ دانی بانجھ پن یا کینسر جیسے مرض کی شکار خواتین میں داخل کی جاسکے گی۔