تین طلاق پر سرکاری موقف کے پس پردہ کوئی ایجنڈا نہیں: وزیر قانون

نئی دہلی 20 اکتوبر (یو این آئی) اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ نریندر مودی حکومت خواتین کے حق میں معاشرتی، صنفی انصاف اور مساویانہ سلوک کو یقینی بنانا چاہتی ہے ، مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے آج کہا کہ اس لحاظ سے حکمراں بی جے پی نے تین طلاق کے معاملے پر جو موقف اختیار کیا ہے اس کے پس پردہ کوئی ایجنڈا نہیں۔اس استدلال کے ساتھ کہ تین طلاق کا معاملہ مسلم خواتین کے ذریعہ عدالت تک پہنچا ہے مسٹر پرساد نے یو این آئی کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ سپریم کورٹ کے کہنے پر مرکزی حکومت نے اس معاملے پر جو حلف نامہ داخل کیا ہے وہ اُن آئینی اقدار پر مبنی ہے جو ملک کے ہر شہری کو مساوی حقوق اور وقار کے ساتھ جینے کے حق کی ضمانت دیتی ہیں۔ہندستان جیسے سیکولر ملک میں مسلم خواتین کے حقوق کی پر زور وکالت کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ اگر کسی عائلی ضابطے کے خلاف متاثرہ حلقے کی طرف سے آواز اٹھی ہے تو وہ ان سنی نہیں کی جاسکتی اور اگر ایک درجن سے زیادہ اسلامی یا مسلم اکثریت والے ملکوں میں تین طلاق کی تکلیف دہ روایت کو ضابطہ بند کیا گیا ہے تو ہندستان میں ایسی کسی بحث کو کیسے باجواز گردانا جا سکتا ہے کہ حکومت کا موقف شریعت سے متصادم ہے ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہ مرکزی حکومت کا اقدام مسلمانوں کے عائلی امور کے لئے وضع کردہ شرعی ضابطوں میں غیر ضروری مداخلت ہے مسٹر پرساد نے کہا کہ ایک مہذب معاشرے میں کوئی بھی امتیازی عمل عقیدے کا حصہ نہیں بن سکتا۔وزیر قانون نے یہ کہتے ہوئے کہ ”عقیدے کے حق کا جہاں ہم مکمل احترام کرتے ہیں وہیں عقیدے کے نام کوئی بھی غلط روایت ہرگز ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتی، سوال کیا کہ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ چھوا چھوت کا روایتی عمل اُس کے عقیدے کا حصہ ہے تو کیا اس دعوے کو آئینی طور پر قبول کیا جا سکتا ہے ۔مسٹر پرساد نے اس بات پربھی زور دیا کہ تین طلاق کے معاملے کامن سیول کوڈ سے خلط ملط کر کے نہ دیکھا جائے ۔ لاکمیشن میں دونوں الگ الگ زیر بحث ہیں اور کمیشن نے کامن سیول کوڈ پر تو تمام متعلقین کے خیالات مانگے ہیں۔ بعد ازاں ان پر ہر پہلو سے مفصل انداز میں غور کیا جائے گا۔وزیر قانون نے کہا کہ ہندستانی مسلمانوں کو زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس محاذ پر بھی دوسرے اسلامی یا مسلم اکثریت والے ملکوں کے لئے رول ماڈل بننا چاہئے ۔ اس سمت میں انہوں نے راشٹریہ مسلم مہیلا اندولن کو بدلے ہوئے ہندستان کی امنگوں اور آرزووں کا آئینہ دار قرار دیا اور کہا کہ مودی حکومت کے اب تک کے پروگرام اور پالیسییوں کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ قومی ترقی کو خواتین کی ترقی سے مربوط ہی نہیں رکھا گیا بلکہ انہیں سر فہرست رکھا گیا ہے ۔ اس کی ایک مثال بیٹی پڑھاو، بیٹی بچاو مہم ہے ۔ وزارت اقلیتی امور اس مہم کو مسلم خواتین کے رخ پر انتہائی سرگرمی سے آگے بڑھا رہی ہے ۔وزیر قانون نے کہا کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمہ جہت قومی ترقی میں خواتین کو شانہ بشانہ آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم روایات کی پاسداری پر انسانی رشتوں کو مضبوط بنانے والے ضابطوں کو ترجیح دیں۔ تین طلاق کو جب تیونیسیا، مراقش، مصر انڈونیشیا، ایران، بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت ایک درجن سے زیادہ ملکوں میں منضبط کیا جا چکا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندستان میں کسی غلط روایت کو عقیدے کا مبینہ حصہ بنائے رکھنے سے گریز کیا جائے ۔مسٹر پرساد نے ملک میں پیش آنے والے بعض ناخوشگوار واقعات کے حوالے سے کہا کہ وزیر اعظم نے ایک سے زیادہ موقعوں پر ناموافقات کی سخت گرفت کی ہے لہذا وقت آگیا ہے کہ قوم اندیشوں سے باہر نکل کر اُن امکانات سے استفادہ کرے جو مودی حکومت میں کسی ایک حلقے یا طبقے کے لٗے محدود نہیں۔