دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے قرآن کا پیغام

انسانیت کی بنیاد پر متحد ہوجاؤ

یہ دنیا تنوع سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں مختلف فکر وخیال کے لوگ رہتے ہیں،جن کے مذاہب الگ ہیں۔ جو الگ الگ زبانیں بولتے ہیں اور الگ الگ طرز زندگی کے حامل ہیں۔ ان کے اندر رنگ و نسل کے اختلافات ہیں اور وہ ایک دوسرے سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ ان اختلافات نے دنیا میں بڑی بڑی جنگیں برپا کی ہیں اور خونریز معر کے ہوئے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر انسان نے انسان کا خون بہایا ہے تو کبھی زبان کے نام پر انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ کبھی علاقے اور رنگ ونسل کے اختلافات کے سبب آدمی نے آدمی کو غلامی کی زنجیریں پہنائی ہیں اور نوع انسانی کی اس فطری آزادی کا گلا گھونٹا ہے جو اس کا پیدائشی حق ہے۔ طاقت ور نے کمزور کو دبایا اور دولت مندوں نے غریبوں کے حقوق دبائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا نظام نہیں ہوسکتا جو سبھی کو ان کے حقوق دینے کی بات کرے؟ جہاں کوئی کمزور نہ ہو اور کسی کو طاقت کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نا انصافی کرنے کی اجازت نہ ہو؟ جہاں چھوٹے اور بڑے کا فرق مٹ جائے اور رنگ و نسل کی تفریق سے اوپر اٹھ کر لوگ ایک دوسرے کے حقوق اور آزادی کا احترام کریں؟ ان سوالوں کا بس ایک جواب ہے کہ ایسا تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنے خالق و مالک کے قانون کو تسلیم کرلے اور اس کے حکم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا شروع کردے۔ جو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے اور سب کے حقوق بھی برابر رکھے ہیں۔ اس نے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم حقوق نہیں دیئے ۔ یہ تو انسان ہے جو دوسرے انسان کے حق دبانے کی کوشش میں لگارہتا ہے ۔ وہ دوسروں کے حق مارکر اپنا حصہ زیادہ سے زیادہ کرنے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ اگر خدائی احکام کی بات کریں تو اس میں سب کے حقوق برابر ہیں اور سب کو انسانیت کی بنیا د پر متحد ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ وحدت انسانی کی دعوت اللہ کے احکام کو مجموعہ ہے قرآن کریم جس میں اللہ نے بنی نوع انسان کے لئے اپنے احکام اتارے ہیں۔ وہ اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے اور ان پر رحم وکرم فرماتا ہے لہٰذا اس کے احکام بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف پہنچاکر خوش ہوتا ہے، ایک دوسرے کا حق مارکر وہ مسرت کا احساس کرتے ہیں مگر اللہ کو یہ باتیں پسند نہیں کیونکہ اس کی نظر میں اس کی تمام مخلوق برابر ہے اور کسی ایک کی تکلیف اس کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور اس قدر کہ کوئی ماں بھی اُتنی محبت نہیں کرسکتی۔ اس کی نظر میں اس کی مخلوقات برابر ہیں لہٰذا اس نے انھیں انسانیت کی بنیاد پر متحد ہونے کی دعوت بھی دی ہے۔ قرآن کریم کی سورہ انبیاء میں ہے: ’’اے لوگو! یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا پالنہار ہوں،تو میری ہی عبادت کرو۔‘‘ د وسری جگہ سورہ مومنون میں بھی ایک لفظ کے فرق کے ساتھ یہی حکم دہرایا گیا ہے: ’’بیشک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں، تو مجھ سے ڈرو۔‘‘ انبیاء سابقین کسی ایک خطے، ملک ، قبیلے یا قوم میں مبعوث کئے جاتے تھے مگر نبی اکرم تمام انسانوں کے لئے رسول بن کر تشریف لائے لہٰذا اللہ نے قرآن میںآپ کو حکم دیا: ’’کہہ دیجئے ،اے لوگو! میں تم سارے انسانوں کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘ نبی کریم ساری کائنات کے لئے نبی بن کر آئے اور آپ کے لائے ہوئے احکام سب کے لئے ہیں۔ اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے۔ قرآن انسانی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مختلف مذاہب، الگ الگ رنگ ونسل اور طبقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ میل، محبت سے رہ سکیں۔ اسی لئے قرآن کا پیغام ہے کہ: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں نر اور مادہ میں پیدا کیا ہے اور خاندان وقبیلے بنائے ہیں۔ صرف اس لئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، ورنہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے ، جو زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ قرآن کریم کی یہ آیت وحدت انسانی کی بہترین مثال ہے۔ دنیا میں بسنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور یہ لوگ خواہ خود کو ایک دوسرے سے برتر ظاہر کرتے ہوں مگر خود ان کے خالق کا فرمان ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ برابر ہیں اور ان میں سے نہ کوئی بڑا ہے اور نہ مرتبے کے لحاظ سے چھوٹا۔ اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو صرف تقویٰ اور خوف خداوندی کی بنیاد پر۔حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم نے جو خطبہ دیا تھا اس میں بھی آپ نے مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ کسی کو کسی پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ سب لوگ برابر ہیں اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اللہ اور رسول نے اپنے احکام میں یہ بات واضح کردی ہے کہ حاکم ومحکوم، عربی و عجمی، سیاہ و سفید، کمزور و طاقت ور، مومن و کافرانسان ہونے کی حیثیت سے یکساں ہیں۔ وہ قانون کی نظر میں بھی برابر ہیں لہٰذا کسی کے ساتھ مذہب، ذات، رنگ و نسل یا علاقے کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا: بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے اسی تعلیم کا اثر تھا کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی سیاہ فام بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو سیدی کہہ کر خطاب کیا کرتے تھے۔ وہ بلال جن کے حقوق سے مکہ نے غلام ہونے کے سبب انکار کیا۔جو ایک کمزور مسلمان ہونے کی وجہ سے اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوئے۔وہی بلال ایک قرآن تعلیم کے سبب تاریخ اسلام کی محترم ترین ہستی بن گئے۔ غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک قرآن کریم نے کسی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ کسی غیرمسلم کے ساتھ برا سلوک روا رکھے یا اس کے ساتھ نا انصافی کرے۔ یعنی قرآن نے مذہبی عصبیت کی بنیاد ہی کھود ڈالی۔ کیونکہ کوئی بھی انسان کسی مذہب کا عامل ہوسکتا ہے مگر اسی کے ساتھ وہ انسان بھی ہے اور اس کا حق ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا: ’’تو اگر(غیر مسلم) تمہارے پاس کسی فیصلے کے لئے آئیں تو ان سے اعراض کرلو اور اگر فیصلہ کرو تو انصاف کرو،کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ جس طرح سے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا،اسی طرح اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ غیرمسلم اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ انھیں اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔اگر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو یہ رضاکارانہ طور پر ہونا چاہئے نہ کہ اجباری طور پر۔ قرآن میں اس تعلق سے بھی فرمایا گیا کہ : ’’مذہب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ: ’’تمہارے لئے تمہارا دھرم ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین‘‘ علاقہ و نسل پرستی کی مخالفت اسی طرح قرآنی مذہب کی نظر میں علاقائیت کے نام پر کسی تفرقہ پردازی کی اجازت نہیں اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ کیا جاسکتا ہے۔ عرب میں یہ فخر و غرور عام بات تھی کہ اہل عرب باقی دنیا کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے اور حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے حالانکہ اسلام کی نظر میں یہ کوئی برتری کی بات نہیں تھی۔ افریقہ کے لوگ سیاہ فام ہوتے ہیں جو غلام کے طور پر عرب لائے جاتے تھے لہٰذا ان کے ساتھ بھی بھید بھاؤ کا سلسلہ جاری تھا۔ اسی لئے رسول اکرم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا تھا کہ ’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر فوقیت حاصل نہیں۔‘‘ ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ بھی سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک مجلس میں سلمان فارسی، صہیب رومی اوربلال حبشی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ تینوں غیر عرب تھے۔ قیس بن مطاطیہ نامی ایک منافق نے دیکھا تو کہنے لگا کہ اوس وخزرج نے اگر پیغمبر اسلام کی حمایت کی تو حیرت کی بات نہیں لیکن یہ حمایت کرنے والے لوگ ان کے کیا لگتے ہیں؟مطلب یہ کہ ان فارسیوں، رومیوں اور حبشیوں کا تو رسول اللہ کی قومیت سے کوئی تعلق نہیں۔ حضرت معاذبن جبل نے جب یہ بات سنی تو اس کا گریبان پکڑ لیا اور بارگاہ رسالت مآب میں لے کر آئے اور واقعہ بیان کیا، جسے سن کر رسول اللہ بہت غضبناک ہوئے اور لوگوں کو مسجد میں جمع کرکے فرمایا: ’’اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک ہے۔ باپ بھی ایک ہے۔ دین بھی ایک ہے۔ عربیت تم میں سے کسی کی ماں ہے نہ باپ۔ وہ ایک زبان ہے جو شخص اسے بولتا ہے وہ عرب ہے۔‘‘ یونہی ایک مرتبہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو حبش زادہ کہہ دیا تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے اندر ابھی بھی جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ ان دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے انسان کو انسان بنایا تھا اور انھیں الگ الگ خانوں میں بانٹنے سے منع کیا تھا۔ کیونکہ وہ خواہ کسی بھی خطے کے ہوں اور ان کی قومیت جو بھی ہے لیکن وہ بہرحال ایک ہی خالق کی مخلوق ہیں اور ایک ہی انسان کی اولاد ہیں۔ اس نسبت سے ان کے اندر اتحاد ہونا چاہئے۔ فارسی کے ایک مشہور صوفی شاعر شیخ سعدی شیرازی کہا ہے کہ: بنی آدم اعضائے یکدگرند کہ در آفرینش زِ یک جوہرند چو عضوے بہ درد آورد روزگار دگر عضو ہارا نماند قرار یعنی آدم کی اولاد ایک جسم کے مختلف اعضا کی طرح ہیں، کیونکہ ان کی پیدائش ایک ہی گوہر سے ہوئی ہے۔ جب جسم کے کسی ایک عضوکو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے عضو کو بھی چین و سکون نہیں ملتا۔ قرآن بار بار یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، اسی کے احکام کے مطابق زندگی گذارے مگر اسی کے ساتھ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے مطابق الگ الگ سوچ کے ہیں لہٰذا اس دنیا میں وحدت دین نہیں ہوسکتا لہٰذا کوئی بھی انسان اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لئے آزاد ہے البتہ اسے یہ مان لینا چاہئے کہ وہ انسان ہے اور انسانی بنیاد پر تمام انسانوں کا اتحاد ممکن ہے۔ وہ قومی، لسانی، اور نسلی بنیاد پر لوگوں کو ساتھ آنے کی دعوت نہیں دیتا کیونکہ یہ وہ بت ہیں جو اتحاد سے زیادہ اختلاف کا سبب بنتے ہیں۔