دوران نیند موٹے بچوں کی سانس میں رکاوٹ

*۔ شبنم خاتون
مٹاپا صحت کادشمن ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک دو نہیں ، بلکہ صحت کے کئی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ، یہاں تک کہ موٹے بچے بھی ان مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق زیادہ وزن کی وجہ سے بچے بھر پور نیند سے بھی محرام رہتے ہیں۔مٹاپا صحت کادشمن ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک دو نہیں ، بلکہ صحت کے کئی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ، یہاں تک کہ موٹے بچے بھی ان مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق زیادہ وزن کی وجہ سے بچے بھر پور نیند سے بھی محرام رہتے ہیں۔ ہانگ کانگ کی چینی یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق کے مطابق موٹے بچوں میں سے ایک تہائی بچے نیند کے دوران رات میں کسی نہ کسی وقت سانس لینے میں وقت اور رکاوٹ محسوس کرتے ہیں ، جب کہ معمول کے وزن والے صرف 5فیصد بچوں کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر وائی۔ کے دنگ کے مطابق اس تکلیف کا ایک سبب گلے کے بڑھے ہوئے غدود (ٹانسلز ) بھی ہوتے ہیں۔ اپنے وسیع مطالعے کی بنیاد پر بتاتے ہیں کہ زیادہ وزن سانس کے مسائل پیدا کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے نیند کے دوران سانس کی نالیاں : تنگ ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر ونگ کہتے ہیں کہ نیند کے دوران پیش آنے والے مسائل نیند میں سانس رکنے کی شکایت قرار دیے جاتے ہیں ، جن کا علاج سرجری سے کیا جاتا ہے ، اس سلسلے میں حلق کے پچھلے حصے میں بڑھے ہوئے گوشت کے ریشے کاٹ کر الگ کردیے جاتے ہیں یا پھر بچے کا وزن معمول پرلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک علاج یہ بھی ہے کہ سوتے وقت بچوں کے منھوں میں ایک خاص کا آلہ لگادیاجاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ آرام سے سوتے رہتے ہیں۔ نیند کے دوران سانس میں رکاوٹ کی شکایت میں مبتلا افراد کا سانس تھوڑی دیر کے لیے رک جاتا ہے اور یہ دوبارہ شروع بھی ہوجاتا ہے۔ اس کا سبب توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کی کمزوری اور خود توجہ کی کمی قرار دی جاتی ہے۔ بڑی عمر یا بالغ افراد میں دوران نیند سانس رکنے کی شکایت عام ہوتی ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بعض موٹے بچے عام بچوں کی طرح اس شکایت کے شکار نہیں ہوتے اور وہ آرام کے ساتھ بھر پور نیند لیتے ہیں۔ ڈاکٹر ونگ کی تحقیق میں 90بچوں کا نیند کے دوران مشاہدہ کیا گیا۔ اس میں ان کے وزن میں اضافے کی صورت میں یہ بھی دیکھا گیا کہ ایسے بچوں کو نیند کے دوران دیگر کیا مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ ان 90بچوں میں سے آدھے مٹاپے کاشکار تھے۔ مطالعے سے اندازہ ہوا کہ 20 فیصد موٹے بچے نارمل وزن والے بچوں کے مقابلے میں نیند میں سانس کی بندش کا شکار تھے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ جن بچوں کے ٹانسلز غیر معمولی طور پر بڑھے ہوئے تھے ، وہ دوران نیند سانس رکنے کی شکایت میں نارمل بچوں کے مقابلے میں 13فیصد زیادہ مبتلا ہے۔ ان حقائق کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مٹاپے کو نظرانداز نہ کیاجائے اور اس شکایت کے شکار بچوں میں اس اہم سبب کو ضرور پیش نظر رکھے جائے۔ ڈاکٹر ونگ اور ان کے ساتھیوں کے مطابق جو کچھ وہ کھوج لگاچکے ہیں اس کے مطابق روغنی کھانے ان بچوں کی اس شکایت کا سب سے اہم سبب ہوتے ہیں۔ ان کھانوں میں شامل چکنائیوں کی وجہ سے خون کی رگیں ٹھیک طور پر کام نہیں کرتیں اور بروقت علان نہ کرانے کی صورت میں یہ آگ چل کر ان بچون میں شریانوں کی تنگی کا سبب بن جاتی ہیں۔ تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی ایک وقت آدھے گھنٹے کی ورزش جسم میں 20 سے 25فیصد چربی گھٹا سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا مٹاپے کی تکلیف کے آغاز سے پہلے کی گئی ورزش رگوں پر اثرات مرتب کرتی ہے۔ دریں اثنا امریکا کی سین سنائی یونیورسٹی کے بچوں کے اسپتال کے مطابق زیادہ موٹے بچے آگے چل کر قلب کی باقاعدگیوں کاش کار ہو کر حملہ قلب اور سینے میں درد کے مریض بن جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں 5 سے 23 سال کی عمر کے ایسے 343بچوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان عمروں میں بھی موٹے بچوں کے قلب میں تبدیلیاں رونما ہوگئی تھیں۔ ان کے قلب کا حجم یا دبازت بڑھ چکی تھی۔ گویا ان کے مردنی قلب کی شکایت میں مبتلا ہونے کا خطرہ پیدا ہوچکا تھا۔ قلب کی دبازت جتنی زیادہ ہوگی ، اس پر حملے کا خطرہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ یہ قلب میں خون کی روانی میں کمی کاایک اہم نتیجہ ہے۔ یہ بات ماہر قلب ڈاکٹر ٹام کیمبل نے بتائی۔