رام کے سلسلے میںآستھا پر سوال نہیں اٹھائے جا سکتے ،تو 3 طلاق پر کیوں؟ : سبل

نئی دہلی،16؍مئی (یواین آئی) سپریم کورٹ میں تین طلاق پر سماعت جاری ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے دلیل پیش دیتے ہوئے کپل سبل نے کہا تین طلاق 1400سال پرانی رسم ہے اور یہ قبول کی گئی ہے، یہ معاملہ عقیدہ سے جڑا ہوا ہے ،جو 1400سال سے چلا آ رہا ہے ،اس لیے یہ غیر اسلامی کس طرح ہے؟جیسے مان لیجئے ، میرا ایمان رام پر ہے اور میرا یہ ماننا ہے کہ رام ایودھیا میں پیدا ہوئے، اگر رام کو لے کر عقیدہ پر سوال نہیں اٹھائے جا سکتے ،تو تین طلاق پر کیوں؟ یہ سارا معاملہ اعقیدہ سے جڑا ہواہے ، پرسنل لاء قرآن اور حدیث سے آیا ہے، کیا عدالت قرآن میں لکھے لاکھوں الفاظ کی تشریح کرے گا؟ آئین ،اخلاقیات اور مساوات کا اصول تین طلاق پر لاگو نہیں ہو سکتا ،کیونکہ یہ عقیدہ کا معاملہ ہے۔کپل سبل نے کہا کہ آئین سبھی مذاہب کے پرسنل لاء کو منظوری دیتا ہے،ہندوؤں میں جہیز کے خلاف جہیز خاتمہ ایکٹ لایا گیا ، لیکن رواج کے طور پر جہیز لیا جا سکتا ہے، اسی طرح ہندوؤں میں اس رواج کو تحفظ دیا گیا ہے ،تو وہیں مسلمانوں کے معاملے میں اسے غیر آئینی قرار دیا جا رہا ہے۔عدالت کو اس معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے ، نہیں تو سوال اٹھے گا کہ اس معاملے کی کیوں سماعت کی جا رہی ہے؟ کیوں نوٹس لیا گیا، شریعت پرسنل لاء ہے، اس کا موازنہ بنیادی حقوق کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا، ہمیں ہر مذہب کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرنا چاہیے ، اگر وہ خراب بھی ہے تو لوگوں کے اندر اس مسئلہ میں بیداری پیدا کرنا چاہیے ، محسوس کرایا جانا چاہیے کہ وہ غلط ہیں اور قانون بنانا چاہیے، ہر مسلم اکثریتی ملک میں ہندوؤں کو تحفظ ملنا چاہیے ، اسی طرح ہندو اکثریتی ملک میں بھی مسلمانوں کو تحفظ ملنا چاہیے ۔جسٹس کورین نے کپل سبل سے کئی بار پوچھا کہ قرآن کریم میں پہلے سے ہی طلاق کا طریقہ بتایا گیا ہے تو پھر تین طلاق کی کیا ضرورت؟ جب قرآن مجید میں تین طلاق کا کوئی ذکر نہیں ہے ، تو یہ کہاں سے آیا؟ اس پر کپل سبل نے کہا کہ قرآن میں تین طلاق کا ذکر نہیں ہے، لیکن کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول کی بات مانو، اللہ کے رسول اور ان کے صحابہ سے تین طلاق کا عمل شروع ہواہے ، یہ عقیدہ سے جڑا معاملہ ہے، عدالت اس کی تشریح نہیں کر سکتی ۔جسٹس کورین نے کہاکہ کم از کم ہم یہ تو پتہ لگا ہی سکتے ہیں کہ تین طلاق عقیدہ کا حصہ ہے یا نہیں؟۔اس سے قبل پیر کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ سے کہا کہ تنازعہ صرف تین طلاق کے مسئلے کو لے کر نہیں ہے، بلکہ کمیونٹیوں کے درمیان مردوں کے تسلط کی وسیع موجودگی بھی ہے۔بورڈ نے چیف جسٹس جسٹس جے ایس کھیہر کی صدارت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ سے کہا کہ مردوں کے تسلط والے سبھی معاشرہ امتیازی سلوک کرتا ہے ، اس کے وکیل کپل سبل نے بنچ سے یہ بھی کہا کہ پرسنل لاء اور رسوم ورواج میں فرق ہوتا ہے ۔سبل نے کہاکہ مردوں کے تسلط والا ہر معاشرہ جانبدار ہے، ہندو مذہب میں باپ اپنی جائیداد کی وصیت کسی کو بھی کر سکتا ہے، لیکن مسلم کمیونٹی میں ایسا نہیں ہے، میں ہندو سماج میں ایسی کئی روایات کی طرف اشارہ کر سکتا ہوں، کیا یہ صحیح ہے کہ کوئی عورت طلاق کے لیے درخواست دے اور 16سال تک جدوجہد کرے اور اسے کچھ حاصل نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ ہماچل پردیش کے کچھ علاقوں میں تعدد ازدواج کی روایت ہے، لیکن اسے تحفظ حاصل ہے کیونکہ یہ روایت ہے اور صرف معاشرہ یہ فیصلہ کرے گا کہ اسے کب تبدیل کیا جائے گا۔واضح رہے کہ پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے دلیلیں پیش کرنے کا سلسلہ ابھی مکمل نہیں ہوا اور یہ سلسلہ کل بھی جاری رہے گا ۔