روزے کی فضیلت اور اس کے آداب

انسان کے اندر جہاں اور بہت ساری صفتیں پائی جاتی ہیں وہیں ایک صفت خوف اور ڈر کی ہے، جو انسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک اس کے ساتھ لگی رہتی ہے، اور یہ صفت ایسی ہے جو انسان اورحیوان ہر ایک کی بقاء اور سا لمیت کے لیے لازمی شئی ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں میں بعض سے بھاگتے ہیں، ڈرہے اور بعض سے نہ ڈرتے ہیں اور بھاگتے ہیں، بلی! کتے اور لومڑی کو دیکھ کر بھاگتی ہے۔ جب کہ گائے بھینس اس سے بڑے ہیں مگر ان سے نہیں بھاگتی، چوہیا، بلی اور کتے سے ڈرتی ہے، خصی اور بکری سے نہیں ڈرتی، آخر کیا وجہ ہے؟ اس سلسلہ میں جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس نوع کی بقاء اور سا لمیت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ ان تمام چیزوں سے بچے اور گریز کرے جو اس کی ذات اور جان کے لیے خطرہ ہو، اسی لیے اللہ رب العزت نے اس کی فطرت میں خوف اور ڈر کو بھی پید کردیا تاکہ وہ اپنی حفاظت خود کرسکے، گویا کہ اس کی حفاظت اور ڈیفنس کی ضمانت ہے اور صفت خوف اس بات کی سیکورٹی ہے کہ وہ جس ذات کے اندر ہوگی اس کو ان تمام چیزوں سے ڈراتی رہے گی اور بروقت اس کو آگاہ کرے گی کہ یہ چیز تمہارے لیے نقصان دہ ہے، مہلک ہے، خطرناک ہے اس کے قریب نہیں جانا، جس طرح سے ایک سیکورٹی گارڈ اپنے مالک کی حفاظت کرتاہے اور اس کا محافظ بن کر سانہ کی طرح اس کے ساتھ لگارہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ذات نہایت رحیم وکریم ہے۔ اس نے اپنے بندوں کے لیے دنیا کی ساری نعمتیں فراہم کیں، ہوالذی خلق لکم مافی الأرض جمیعا (البقرۃ: ۲۹) وہی اللہ کی ذات ہے جس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لیے پیدا کررکھی ہیں۔ مگر یہ دنیا چونکہ اس کی آخری اور ابدی منزل نہیں ہے۔ یہ تو مسافر خانہ ہے، درمیان کا ایک اسٹیشن ہے جہاں چندروز قیام کرنے کے بعد ہمیشہ ہمیش کی زندگی کی طرف کوچ کرجانا ہے، البتہ وہاں جانے کے لیے کچھ تیاریاں کرنی ہوتی ہیں، او رجس کی جیسی تیاری ہوگی اس کو ویسا ہی پھل اور بدلہ وہاں ملے گا، عمل چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، نیکی معمولی درجہ کی ہو یا بڑی ہو۔ عمل حقیر ہو کہ عظیم کل قیامت کے دن ہر ایک چیز اس کے سامنے ہوگی اور اسے اپنی سرکی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرلے گا، فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ (الزلزال:۷،۸) جو شخص رائی کے دانے کے برابر جو نیکی کرے گا اس کو دیکھ لے گا اور جو رائی کے دانے کے برابر بُرائی کرے گا اس کو بھی دیکھ لے گا، وہاں کو چالاکی اور ہشیاری نہیں چلے گی، اس دن زبان پر تالا لگا ہوگا، اسے گفتگو کی اجازت نہیں ہوگی، گفتگو تو انسان کے اعضاء کریں گے ہاتھ بات کرے گا۔ پرگواہی دے گا۔ اس دن انسان کو اپنی حقیقت اور حیثیت سمجھ میں آجائے گی، الیوم نختم علی أفواہہم وتکلمنا أیدیہم وتشہدأرجلہم بما کانوایکسبون جس دن ہم ان کے منہ پر تالا لگا دیں گے ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ (یٰسین:۶۵) اس موقع پر انسان کو بڑا تعجب ہوگا کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے، کل جب ہم دنیا میں تھے تو یہ سب ہمارے تابع تھے جیسے کہتے اسے کرتے، جو اشارہ کرتے اس کو بجالاتے تھے، آخر آج ان کو کیا ہوگیا کہ ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں سب ان کے خلاف گواہی دے رہی ہیں، قرآن نے اسی منظر کو بڑے ہی پیارے انداز میں بیان کیا ہے، فرمایا: حتیاذا ماجاؤ وماشہدعلیہم سمعہم وأبصارہم وجلودہم بماکانو یعملون، پھر جب سب وہاں (جہنم میں) پہنچ جائیں گے اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں (حم السجدۃ:۲۰) تب انسان اپنی جلدوں سے پوچھیں کہ آخرتم کیسے گواہی دینے لگے، اور تمہیں بولنے کی طاقت کیسے ہوگئی۔ وقالوالجلودہم لم شہد تم علینا، قالوا ألظقنااللہ الذی أنطق کل شئی وہو خلقکم أول مرۃ والیہ ترجعون۔ وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی! وہ جواب دیں گے ’’ہمیں تو اسی خدا نے گواہی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا بنایا ہے اور ہر چیز کو بولنا سکھایا ہے، اسی نے تو تم کو پہلی مرتبہ پیداکیا تھا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائے جارہے ہو، (حم السجدۃ:۲۱)
معلوم ہوا کے کل قیامت کے دن انسان اپنے کئے کا بدلہ پائیگا جیسا کریگا ویسا ہی اس کا نتیجہ ہوگا، لہذا ہماری اس مستعار زندگی کا مقصد او رہد ف عمل کرنا ہے او ریہ دنیا عمل گاہ ہے، چونکہ ہمیں اس دنیا کے اندر وہی سارے اعمال کرنے ہیں جو ہمیں جہنم سے نجات دلاسکیں اسکی آگ کا ایندھن بننے سے روک سکیں، او راس کے لئے ضروری تھا کہ ہمارے اندر بھی خوف ہو تا جو ہمیں اس سے بچاتا، اور چونکہ اس کا عذاب اور اسکی ہلاکت ان دیکھا ہے اس لئے اسکی بھی ضرورت تھی کہ کوئی نذیر ہوتا کوئی ہمیں ڈرانیوالا او راس ہلاکتوں سے باخبر کرنیوالا ہوتا، چنانچہ اللہ رب العزت یہ دونوں چیزیں ہمارے مہیا کردیں، ہمارے اندر خوف او رڈر بھی پیدا کیا او رڈرانے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر و نذیر بنا کر مبعوث فرمایا، وما ارسلنا ک الا مبشرا ونذیرا(نہ ماننے والوں کیلئے ) نذیر تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے،(الکھف:۱۰۵) اور اللہ تعالی نے ہمیں بار بار اس بات کی تنبیہ کی او رڈرایا کہ ہم جہنم کی آگ سے بچیں، نفس کی پیروی کرنے سے بچیں، خدا کے سوادوسرے باطل خداؤں کی پرستش نہ کریں کہ وہ سب ہمیں ایسی جگہ پہونچائیں گی او رلیجائیگی جو بہت ہی برا ٹھکا نہ ہے۔
فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعدت للکافرین۔
ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن بنیں گے انسان او رپتھر جو تیار کی گئی ہے منکریں حق کیلئے (البقرہ:۲۴)
افتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی وہم لکم عدوّبئس للظالمین بدلا،کیا تم مجھے چھوڑ شیطان اور اسکی ذریت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، بڑا ہ بڑا ہی بر ا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کرہے ہیں، ( الکھف:۵۰)
چونکہ آخرت کی ساری کامیابی متقیوں کیلئے ہوگی ، وہاں کی نعمتیں وہا ں کی بہاریں ، وہاں کی عمدہ او رعالیشان باغات او رجنتیں سب متقیوں کیلئے ہی ہوں گی جو اللہ سے ڈرنے والے ہوں، خداکی رضا ، اس کا دیداراو رجنت کی طلب میں، خواہشات نفس سے شیطان کی چعلبازیوں سے اور دنیا کی مکاریوں سے ڈرڈرکر اپنی زندگی گذاری ہو اس لئے اللہ رب العزت نے اپنی حکمت بالغہ او ررحمت عامہ سے مسلمانوں کو ایک ایسا مبارک مہینہ عطا کیا ہے جو تقوی کا مہینہ کہا جاتا ہے ، جس مہینہ کی عبادت کا مقصد بندگانِ خدا کے دلوں میں خوف الہی او رخشیت ربانی کو پیدا کرتا ہے ، نیکیوں کا خوگر اور برائیوں سے نفرت دلا نا ہے اور وہ ماہِ مبارک رمضان ہے جس کے بارے میں خود احکم الحاکمین کا ارشاد ہے ،یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون،اے ایمان والوجس طرح تم سے پہلے کی امتوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا تم پر بھی فرض کردیا گیا، (مقصدیہ ہے ) کہ تم متقی ہو جاؤ( البقرۃ:۱۸۳)یعنی اس مبارک مہینہ کے اندر محض احترام خداوندی کی وجہ سے فاقہ کشی او رترکِ خواہشات کرنا ہے تاکہ بہمیت کو کمزور کیا جا سکے جو ہر برے کام کا جذبہ پیدا کرتی ہے ، او رخیر کے کاموں سے روکتی ہے اور جس سے سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے پناہ مانگی تھی او رفرمایا تھا،وما ابری نفسان النفس لا ما رۃ بالسوا میں اپنے نفس کی براء ت نہیں کررہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے ،( یوسف:۵۳)
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے نوجوانوں تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہے چاہئے کہ وہ شادی کرلے اس لئے کہ نکاح نظر کو جھکانیوالا ہے ، شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے ، او رجسکو اسکی طاقت نہ ہو چاہئے کہ وہ روزہ رکھے، اس لئے کہ روزہ شہوت توڑتا ہے، ( بخاری،مسلم)
روزہ کا جو مقصد قرآن و سنت میں بیان کیا گیا ہے اس کا حصول اسی وقت ممکن ہے جبکہ اس کو اس طریقہ پر رکھا جائے جس طرح سے اس کو رکھنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے ، ذیل میں روزہ کے چند آداب بیان کئے جاتے ہیں جس کے اہتمام سے ہم اپنے روزوں کو با مقصد او رمفید بنا سکتے ہیں ۔
۱۔ روزے کے عظیم اجر اور عظیم فائدہ کو نگاہ میں رکھ کر پورے ذوق و شوق کے ساتھ روزہ رکھنے کا اہتمام کریں ، اس لئے کہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدل کوئی دوسری عبادت نہیں ہو سکتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انسان کے ہر عمل کی نیکی دس سے لیکر سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ دونگا، بندہ میرے لئے اپنی شہوت کو قربان کرتا ہے او رکھانے کو ترک کرتا ہے (متفق علیہ )
۲۔ روزہ کی حالت میں جھوٹ نہ بولے، سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا او رجھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ بھوکا او رپیا سا رہتا ہے (بخاری)
۳۔ روزہ رکھنے پر اللہ نے جو انعام او رثواب رکھا ہے اس کو خیال کرتے ہوئے روزہ رکھتا، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من صام رمضان ایمانا و احتابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ومن قام رمضان ایمانا و احتابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ، ومن قام لیلۃ القدر ایمانا واحتابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ (متفق علیہ )
جو شخص پورے ایمان و یقین او راجر و ثواب کی امید کے ساتھ روزے رکھے اسکے پہلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اس طرح جو رمضان المبارک میں قیام اللیل کرتا ہے ( تہجد پڑھتا ہے )ایمانی کیفیت او راحتساب کے ساتھ اسکے پچھلے گناہیں معاف کردیئے جاتے ہیں، او رجو شخص شب قدر کو جاگتا ہے اللہ کی عبادت کرتا ہے ( او راس رات کی عبادت ) پر یقین بھی رکھتا ہے او راحتساب بھی کرتا ہے اسکے بھی تمام گناہیں بخش دیئے جاتے ہیں۔
۴۔ رمضان کا روزہ بغیر کسی شرعی عذر کے نہ چھوڑے ، رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ : جس شخص نے کسی بیماری یا شرعی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا تو عمر بھر کے روزے رکھنے سے بھی اس ایک روزے کی تلافی نہیں ہو سکے گی (ترمذی)
۵۔ احادیث میں روزے کا جو حکم بیان کیا گیا ہے اسکی آرزو کرنی چاہئے، اور خاص طور سے افطار کے وقت خدا سے دعا کریں کہ خدایا میری گناہوں کو معاف فرما، میرے روزوں کو قبول فرما، اور مجھے وہ اجرو ثواب عطا فرما جس کا تونے وعدہ کیا ہے، نبی کا ارشاد ہے کہ : روزے دار جنت میں ایک مخصوص دروازے سے داخل ہوں گے، اس دروازے کا نام ریاّن(سیراب کرنے والا) ہے، جب روزے دار جنت میں داخل ہو چکیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گاپھر کوئی اور اس دروازے سے داخل نہ ہو سکے گا(بخاری)
اور آپ نے یہ گھی فرمایا: کہ قیامت کے دن روزہ سفارش کرے گا اور کہے گا پروردگا رمیں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اوردوسری لذتوں سے روک رکھا، خدایا تو اس شخص کے حق میں میری سفارش قبول فرما، اور خدا سکی سفارش قبول فرمائیگا (مشکوۃ)
۶۔ روزے کی تکلیفوں کو ہنسی خوشی برداشت کرنا چاہئے، اور بھوک و پیاس کی شدت یا کمزوری کی شکایت کرکے روزے کی نا قدری نہیں کرنی چاہئے۔
۷۔ سفر کے دوران یا مرض کی شدت کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکی تو چھوڑ دینا چاہئے اور دوسرے دنوں میں اسکی قضاء کرنی چاہئے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے، فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر، (البقرۃ:۱۸۴)جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو، تو دوسرے دنوں میں روزں کی تعداد پوری کرلے،
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب ہم لوگ نبی کے ساتھ رمضان میں سفر پر ہوتے تو کچھ لوگ روزہ رکھتے اور کچھ لوگ نہ رکھتے، پھر نہ تو روزہ دار روزہ چھوڑنے والے پر اعتراض کرتا اور نہ روزہ توڑنے والا روزہ دار پر اعتراض کرتا (بخاری)
۸۔ روزے میں غیبت اور بد نگاہی سے خاص طور پر بچنے کا اہتمام کر نا چاہئے، رسول اللہ کا ارشاد ہے : روزہ دار صبح سے شام تک خدا کی عبادت میں ہے جب تک وہ کسی کی غیبت نہ کرے، جب وہ کسی کی غیبت کرر بیٹھتا ہے تو اس کے روزے میں شگاف پڑ جاتا ہے (الدیلمی)
۹۔ حلال روزی کا اہتمام کرنا اور حرام کی کمائی سے بچنا چاہئے، کیونکہ حرام کمائی سے پلنے والے جسم کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی، حضور کا ارشادہے : حرام کمائی سے جو بدن پلا ہو وہ جہنم ہی کے لائق ہے۔(بخاری)
۱۰۔ سحری ضرور کھانا چاہئے اس لئے کہ اس سے روزہ رکھنے میں سہولت ہو تی ہے، کمزوری اور سستی نہیں پیدا ہو تی، دوسرے اس میں برکت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ : سحری کھا لیا کرو اس لئے کہ اس میں برکت ہے (بخاری)
ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا : سحری کھانے میں برکت ہے کچھ نہ ہو تو پانی کے چند گھونٹ ہی پی لیا کرو، خدا کے فرشتے سحری کھانے والوں پر سلام بھیجتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)
۱۱۔ سورج غروب ہونے کے بعد افطار میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے، کہ لئے کہ روزہ کا اصل مقصد فرمانبرداری کا جذبہ پیدا کرنا ہے، نہ کہ بھوکا پیاسا رکھنا، رسول اللہ کا ارشاد ہے :
مسلمان جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے اچھی حالت میں رہیں گے، (بخاری)
یہ چند ضروری اور اہم آداب ہیں جسکا ہر روزے دار کو خیال رکھنا چاہئے۔ اور اس کے ساتھ ان دعاوں کا جو سحری کر تے وقت، افطار کرتے وقت پڑھنے کے سلسلہ میں منقول ہیں اس کا ورد کر تے رہنا چاہئے۔ روزے کے ذریعہ ملکیت کو طاقت اور قوت ملتی ہے جو نیک کاموں کے کرنے کا باعث ہوتی ہے اور بہیمیت( نفس) کو کمزوری اور اضمحلال لاحق ہوتا ہے جس سے انسان کا برائیوں اور گناہوں سے بچنا آسان ہوتا ہے ۔ اور ایک مومن کی زندگی کا ما حصل یہی ہے کہ وہ برائیوں سے بچ کر نیکیوں کا پابند ہو ۔ اور کل قیامت کے جہنم کے آگ سے اپنے آپ کو جلنے سے بچا لے، اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو روزہ کو کما حقہ رکھنے اور اسکا حق ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین