رویت ہلال ۔۔۔۔۔۔ شریعت اسلامی کی روشنی میں

مفتی امتیاز احمد قاسمی ، معاون قاضی شریعت مرکزی دار القضاء امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

اللہ تعالی نے لوگوں کی سہولت کے پیش نظر بہت سی دینی عبادتوں مثلا رمضان کا روزہ ،شب قدر،شب براء ت،اعتکاف،عید الفطر ،عید الاضحی،زکوۃ اور حج وغیرکو قمری مہینوں سے وابستہ کیا ہے۔ قمری مہینہ تیس(۳۰)دن کا ہوتا ہے یا انتیس(۲۹)دن کاجیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عمرؓ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے۔ ان رسول اللہ ﷺقال: الشھر تسع وعشرون لیلۃ فلا تصوموا حتی تروہ فان غم علیکم فاکملواالعدۃ ثلاثین (بخاری)
تمام احکام شرعیہ جو چاند کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہیں ان میں چاند کا ہونا یہ ہے کہ عام آنکھوں سے نظر آئے، لفظ ’’رؤیت ‘‘عربی زبان کا مشہور لفظ ہے جس کے معنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھنے کے ہیں۔ شریعت اسلامی میں وجود چاند کا اعتبار نہیں ہے،بلکہ چاند کی رؤیت وشہود کا اعتبار ہے۔ چاند کا قابل رؤیت ہونا اور آنکھوں سے دیکھا جانا ضروری ہے۔ چاند کسی وقت اور کسی دن بھی معدوم نہیں ہوتا ہے بلکہ اپنے مدار میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ اس لئے آلات جدیدہ کے ذریعہ چاند دیکھنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کا عام نگاہوں کے لئے قابل رؤیت ہوناضروری ہے۔ اسی طرح محض حسابات،قرائن وقیاس اور کسی نجومی کے قول کے ذریعہ چاند کے افق پر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کر کے ثبوت شہر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔شریعت نے حسابی پیچیدگیوں پر احکام کی بنیاد رکھنے کے بجائے رؤیت وشہود پر رکھی ہے۔ جو ہر شخص کے لئے ہر جگہ آسان ہے۔ اگر ثبوت ہلال کا مدار حسابات پر ہوتا تو اس سے صرف متمدن علاقہ کے لوگ ہی فائدہ اٹھا سکتے تھے، دیہاتوں اور جنگلوں میں رہنے والے اس سے مستفید نہیں ہو سکتے ۔
شریعت اسلامی نے عوام کی سہولت کے پیش نظرروزہ ، زکوۃ،حج اور عیدین وغیر جیسے اعمال وعبادات کے لئے جن کا تعلق ماہ وسال سے ہے چاند کو معیار قرار دیتے ہوئے نظام قمری کا اعتبار کیا ہے۔ یسئلونک عن الأھلۃ قل ھی مواقیت للناس والحج (سورہ بقرۃ ۱۸۸)حضور پاک ﷺ نے ماہ رمضان کے روزے کی فرضیت کا حکم سناتے ہوئے فرمایا کہ شعبان کے ۲۹؍دن پورے ہونے کے بعد اگر چاند نظر آجائے تو رمضان کے روزے شروع کر دو ورنہ ۳۰؍ دن پورے کر کے روزہ شروع کرو۔ اسی طرح رمضان کے روزے ۲۹؍ یا ۳۰؍دن رکھو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر رؤیت ہلال کے متعلق ضروری ہدایات دی ہیں۔
عن بن عمر عن النبی ﷺ أنہ ذکر رمضان فقال لا تصوموا حتی ترواالھلال ولا تفطروا حتی تروہ فان اغمی علیکم فاقدروا لہ۔(بخاری ومسلم )حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ رمضان کا روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لواور روزوں کا سلسلہ ختم نہ کرو جب تک کہ شوال کا چاند نہ دیکھ لو۔ اور اگر ۲۹؍ کو چاند تم پر مستور ہو جائے دکھائی نہ دے تو اس کا حساب پورا کرو۔ یعنی مہینہ کو ۳۰؍ دن کا سمجھو۔عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ فان غم علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلثین (بخاری ومسلم) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ دو،اور اگر ۲۹؍ تاریخ کو چاند دکھائی نہ دے تو شعبان کے ۳۰؍ دن کی گنتی پوری کرو۔ان احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر ۲۹؍تاریخ کوچاند نظر آنے کا ثبوت نہ ملے تو تیس دن پورا کر کے رمضان شروع ہوگا۔ اسی طرح رمضان کا اختتام ۲۹؍ رمضان کو چاند دیکھنے یا رمضان کے تیس دن پورا کرنے کے بعد ہوگا۔حضور پاکﷺرمضان المبارک کے اہتمام کی وجہ سے شعبان کا چاند دیکھنے اور اس کی تاریخوں کو یاد رکھنے کا خاص اہتما م فرماتے تھے۔ پھر اگر ۲۹؍ شعبان کو رمضان کا چاند نظر آجاتا تو رمضان کے روزے رکھنے شروع فرماتے ورنہ شعبان کے ۳۰؍ دن پورا کر کے روزہ رکھتے تھے۔عن عائشۃؓ قالت کان رسول اللہ ﷺ یتحفظ من شعبان مالا یتحفظ من غیرہ ثم یصوم لرؤےۃ رمضان فان غم علیہ عد ثلاثین یوما ثم صام (ابوداؤد) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺماہ شعبان کے دن اور اس کی تاریخوں کو جتنے اہتمام سے یاد رکھتے تھے اتنے اہتمام سے کسی دوسرے مہینہ کی تاریخوں کو یاد نہیں رکھتے تھے۔ پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتے تھے اور اگر ۲۹؍ شعبان کو چاند دکھائی نہ دیتا تو ۳۰؍ دن کی شمار پورا کر کے روزہ رکھتے تھے۔آپ ﷺ نے رمضان کی خاطر شعبان کی تاریخوں کو اچھی طرح یاد رکھنے کا حکم فرمایا۔عن ابی ھریرۃ ؓ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احصوا ھلال شعبان لرمضان (جامع ترمذی)حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے پیش نظر شعبان کے چاند کو خوب اچھی طرح گنو۔
رؤیت ہلال کے ثبوت کی ایک صورت یہ ہے کہ ہم خود اپنی آنکھوں سے چاند کو دیکھ لیں۔دوسری شکل یہ ہے کہ کسی دوسرے دیکھنے والے کی اطلاع اور شہادت پر اس کو تسلیم کریں۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسا ہوا کہ آپ نے کسی دوسرے دیکھنے والے کی اطلاع اور شہادت پر رؤیت ہلال کو تسلیم کر کے روزہ رکھنے اور عید کرنے کا حکم دیا۔عن ابن عباسؓ قال: جاء اعرابی الی النبی ﷺفقال انی رأیت الھلال یعنی ھلال رمضان فقال أتشھد أن لاالہ الا اللہ قال نعم قال أتشھد ان محمدا رسول اللہ قال نعم قال یا بلال أذن فی الناس ان یصوموا غدا (ابوداؤد، ترمذی،نسائی)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیاکہ میں نے آج چاند دیکھا ہے۔ یعنی رمضان کا چاند۔حضور ﷺنے اس سے دریافت کیا کہ کیا تم اس کی گواہی دیتے ہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے؟اس نے عرض کیا کہ :ہاں میں اس کی شہادت دیتا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم اس کی گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟اس نے کہا ہاں میں اس کی بھی شہادت دیتا ہوں۔ اس کے بعد حضور نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ لوگوں میں اس کا اعلان کر دو کہ کل سے روزہ رکھیں۔ عن عبد اللہ بن عمر قال :تراء الناس الھلال فاخبرت رسول اللہ ﷺانی رأتہ فصام وامر الناس بصیامہ (ابو داؤد)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار آپ کے زمانہ میں لوگوں نے رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کی لیکن عام طور سے لوگ چاند نہ دیکھ سکے۔ تو میں نے آپ کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے۔ تو آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
رمضان کا چاند:فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ اگر ۲۹؍شعبان کو مطلع صاف نہ ہو ابر آلود یا غبار آلود ہو تو ایک معتبرو ثقہ مسلمان کا یہ بیان دینا کہ میں نے چاند دیکھا ہے رمضان کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ معتبر مسلمان سے ایسا شخص مراد ہے جو صوم وصلوۃ کا پابند ہو ، اس کا جھوٹا ہونا معلوم نہ ہو نہ ہی وہ گناہ کبیرہ کا اعلانیہ مرتکب ہو نیز گناہ صغیرہ کا عادی نہ ہو۔ اسی طرح رمضان کے ثبوت کے لئے ایسے شخص کی رؤیت کی خبر کا اعتبار ہوگا جس کے کذب وفسق کا علم نہ ہو۔ چاند کی خبر دینے والے میں مرد وعورت دونوں برابرہیں۔ اور اگر ۲۹؍ شعبان کو ظاہرا مطلع صاف ہو تو رمضان کے ثبوت کے لئے عام رؤیت ہونی چاہئے لیکن عام طور پر لوگ رؤیت کا اہتمام نہیں کرتے ہیں اس لئے فقہاء کرام نے اس عہد کے لئے یہ فتوی دیا ہے کہ اگر دو معتبر مسلمان گواہی دیدیں کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے تو اسے تسلیم کر کے رمضان ثابت مانا جائے گا۔
عیدین کا چاند:
۲۹؍ رمضان کو اگر مطلع صاف نہ ہو ابر آلود یا غبار آلود ہو تو عید الفطر (انقطاع رمضان )کے لئے دو معتبر مرد مسلمانوں کی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت ضروری ہے جن میں شاہد کے اوصاف موجود ہوں ۔وہ خود چاند دیکھنے کی شہادت دیں یا اس بات کی شہادت دیں کہ فلاں جگہ کے قاضی نے گواہی قبول کر کے عید کا اعلان کیا ہے۔ اگر ۲۹؍ رمضان کو مطلع صاف ہو ابر یا غبار نہ ہو تو اس صورت میں دو چار گواہوں کا اعتبار نہیں ہوگا۔ بلکہ عام رؤیت ہونی چاہئے اور جم غفیر کی شہادت ضروری ہوگی جو مختلف اطراف سے آئے ہوں اور اپنی اپنی جگہ چاند دیکھنا بیان کریں۔ جم غفیر کے عدد کی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے۔ اگر اتنے مسلمان شہادت دیں جن کو شہادت لینے والا سچا جانتا ہو اور قاضی یا ذمہ دار رؤیت ہلال کمیٹی کو اطمینان ہو جائے،جماعت کی کثرت کے سبب کسی سازش یا جھوٹ پر متفق ہونے کا احتمال نہ ہو تو ایسے لوگوں کی شہادت پر عید الفطراور عید الاضحی کا فیصلہ کیا جائے گا۔شاہد کے اوصاف:گواہ کا مسلمان ،عاقل وبالغ ،بینا اور عادل ہوناہے۔
یوم الشک کے روزہ کا حکم :
دھوکہ یا غفلت سے رمضان کا کوئی روزہ چھوٹ نہ جائے اس کے لئے رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام بلکہ اس مقصد سے شعبان کا چاند دیکھنے اور اس کے دن وتاریخ کو اچھی طرح یاد رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہیں پر حدود شریعت کی حفاظت کے لئے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ رمضان کے ایک دو دن پہلے سے روزے نہ رکھے جائیں۔ اگر کچھ لوگ عبادت کے شوق میں ایسا کریں گے تو خطرہ ہے کہ ناواقف عوام اس کو شریعت کا حکم سمجھ بیٹھیں۔عن ابی ھریرۃؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : لا یتقدمن احدکم رمضان بصوم یوم أو یومین الا ان یکون رجل کان یصوم صوما فلیصم ذالک الیوم(بخاری ومسلم)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی رمضان کے ایک دودن پہلے سے روزہ نہ رکھے الا یہ کہ اتفاق سے وہ دن پڑجائے جس میں روزہ رکھنے کا کسی آدمی کا معمول ہوتو وہ شخص اپنے معمول کے مطابق اس دن بھی روزہ رکھ سکتا ہے۔ عن عمار بن یاسرؓ قال :من صام الیوم الذی یشک فیہ فقد عصی ابا القاسم ﷺ(ابوداؤد ،ترمذی ،نسائی)جس آدمی نے شک والے دن کا روزہ رکھا اس نے پیغمبر خدا ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔قال رسول اللہ ﷺ لا تصوموا قبل رمضان صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ (ترمذی)یوم الشک سے مراد اکثر محققین کے نزدیک ۳۰؍ شعبان ہے ۔ اس دن میں اگر کوئی شخص اس خیال سے روزہ رکھے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ دن رمضان کا ہو اور ہمیں چاند نظر نہ آیا ہو تو اس نیت سے روزہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے۔ اور حدیث مذکور کا محمل حنفیہ کے نزدیک یہی ہے۔پھراگرکوئی شخص کسی خاص دن نفلی روزہ رکھنے کا عادی ہو اور وہی دن اتفاق سے یوم الشک ہو تو اس کے لئے بنیت نفل روزہ رکھنا جائز ہے۔ اگر عادت کے بغیر کوئی شخص یوم الشک میں نفل کی نیت سے روزہ رکھناچاہے تو حنفیہ کے نزدیک عوام کے لئے ناجائز اور خواص کے لئے جائز ہے۔ کیونکہ خواص شکوک ووساوس کی بناء پر نہیں بلکہ خالص نیت نفل سے روزہ رکھیں گے اور عوام وساوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس کو دین کا حصہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
چونکہ بہت سارے احکام کا تعلق رؤیت ہلال سے ہے اس لئے مسلمانوں کو ہر ماہ کی ۲۹؍تاریخ کو چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ اور نیا چاند دیکھ کر ایمان وسلامتی اور خیر وبرکت کی دعاء کرنی چاہئے۔جیسا کہ حضور ﷺ کا معمول تھا۔عن طلحۃ بن عبید اللہؓ ان النبی ﷺ کان اذا رأی الھلال قال: اللھم اھلہ علینا بالیمن والایمان والسلامۃ والاسلام ربی وربک اللہ ھلال رشد وخیر(ترمذی بحوالہ ریاض الصالحین ص۴۸۲)
اے اللہ اس چاند کو ہمارے اوپر برکت ، ایمان وسلامتی اور اسلام کے ساتھ اور ان اعمال کی توفیق کے ساتھ نکلا ہوا رکھ جو تجھے پسند ہیں۔ اے چاند!میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ فرض کفایہ کے طور پر مسلمانوں پر ضروری ہے کہ تمام ماہ خصوصاماہ شعبان و رمضان کی ۲۹؍ تاریخ کو غروب آفتاب کے وقت چاند دیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ رمضان کا روزہ ارکان دین میں سے ہے جو چاند دیکھنے پر موقوف ہے۔ چاند دیکھ کر یہ کہنا کہ یہ چاند بہت بڑا یا موٹا ہے ،کل کا معلوم ہوتا ہے ،یہ بری بات ہے۔ چاند کے بڑا چھوٹا یا موٹا پتلا ہونے کا اعتبار نہیں ہے۔