عراقی فوج کی موصل کی جانب ’توقع سے تیز‘ پیش قدمی

بغداد، 18اکتوبر (ایجنسی)۔ عراق میں حکومتی افواج اور ان کے اتحادیوں کی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے ملک میں آخری گڑھ سمجھے جانے والے شہر موصل کی جانب پیش قدمی دوسرے دن بھی جاری ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ موصل کو شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے آزاد کروانے کی لڑائی کے آغاز کے پہلے روز عراقی فوج نے توقعات سے تیز پیش قدمی کی ہے۔ تاہم پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کْک نے خبردار کیا کہ اس کارروائی میں ‘وقت لگ سکتا ہے،’ اور یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا دولتِ اسلامیہ ‘مقابلہ کرے گی یا نہیں’۔ پیر سے شروع ہونے والی اس کارروائی میں پیر اور منگل کی درمیانی شب بھی جنگ جاری رہی اور شدت پسندوں نے عراقی فوج کے ٹینکوں کو نشانہ بھی بنایا ہے۔ حکومتی افواج موصل کے جنوبی مضافات سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔ امریکی فوج کے ایک ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ اتحادی افواج کے طیاروں نے دولتِ اسلامیہ کے زیرِ قبضہ علاقوں پر بمباری بھی کی ہے۔ ادھر دولتِ اسلامیہ نے ایک پروپیگنڈا ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ موصل میں شہری فوجی کارروائی کی خبروں سے قطع نظر روزمرہ کے معمولاتِ زندگی میں مصروف ہیں۔ یاد رہے کہ عراق کے وزیرِ اعظم حیدر العبادی نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ موصل سے دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کا قبضہ ختم کروانے کے لیے آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ موصل عراق میں دولتِ اسلامیہ کا آخری گڑھ ہے اور اس کے شدت پسندوں نے سنہ 2014 میں شہر پر قبضہ کیا تھا۔ تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے اس کے بعد موصل کے شہر سے ہی اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا جس کی علامتی اہمیت ہے۔ پیٹر کک نے کہا: ‘ابتدائی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ عراقی فوج نے اب تک اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ اور انھوں نے پہلے دن وقت سے پہلے ہی زیادہ پیش قدمی کی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آیا دولتِ اسلامیہ رک کر مقابلہ کرتی ہے یا نہیں’۔ انھوں نے مزید کہا: ‘ہم پراعتماد ہیں کہ چاہے جو بھی ہو، عراقیوں کے پاس کام مکمل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور ہم بقیہ اتحاد کے ساتھ مل کر ان کی مدد کے لیے تیار ہیں’۔ موصل کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے منصوبہ بندی کئی ماہ سے جاری تھی اور پیر کی صبح عراقی توپخانے نے موصل پر گولہ باری کا آغاز کیا جس کے ساتھ ہی اس جنگ کا آغاز ہو گیا، جس میں عراقی اور اتحادی افواج اور کرد پیش مرگاہ کے 30 ہزار جوان حصہ لے رہے ہیں۔ عراقی حکام کا کہنا ہے کہ موصل پر عراقی افواج کا دوبارہ قبضہ ہونا درحقیقت عراق میں دولتِ اسلامیہ کی مکمل شکست کے مترادف ہو گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ موصل میں دولت اسلامیہ کے تقریباً چار سے آٹھ ہزار جنگجو ہیں۔ اس کارروائی میں مدد کرنے والے امریکی کمانڈر جنرل سٹیفن ٹاؤنسینڈ کا کہنا ہے کہ یہ جنگ مشکل ہوگی اور اس کی تکمیل میں کئی ہفتے لگیں گے۔ موصل میں کارروائی کے آغاز پر اقوامِ متحدہ نے شہر میں محصور 15 لاکھ افراد کے تحفظ کے حوالے سے ‘شدید خدشات’ کا اظہار بھی کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے موصل میں لڑائی کے حوالے سے کہا کہ اس سے شہریوں پر بہت بڑے پیمانے پر اثر پڑے گا اور ایک اندازے کے مطابق موصل اور اس کے گردو نواح میں رہنے والے 15 لاکھ افراد متاثر ہوں گے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ موصل میں جب معرکہ شروع ہوگا تو شہر کے جنوب سے چار لاکھ افراد نقل مکانی کریں گے اور مشرق سے تقریباً ڈھائی لاکھ اور شمالی مغرب سے ایک لاکھ افراد نقل مکانی کریں گے۔ ادھر یورپی یونین کے کمشنر برائے سکیورٹی جولیئن کنگ نے خبردار کیا ہے کہ اگر عراقی افواج موصل پر قابض ہو جاتی ہیں تو یورپ کو جہادیوں کی آمد کے حوالے سے تیار رہنا چاہیے۔ ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگرچہ اس بات کا امکان نہیں کہ دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند بڑی تعداد میں یورپ کا رخ کریں گے تاہم اگر وہ معمولی تعداد میں یورپ میں داخل ہوتے ہیں تو یہ ایک سنگین خطرہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ڈھائی ہزار سے زیادہ یورپی شہری دولتِ اسلامیہ کے لیے لڑنے میں مصروف ہیں۔