فلم بینی ’قدرتی درد کش‘ کا کام کرتی ہے

سائنسدانوں کا کہنا ہے رلانے والی فلم دیکھنے سے سماجی ہم آہنگی اور آپس میں لگاؤ پیدا ہونے میں مدد ملتی ہے۔اس دریافت سے ڈرامائی فکشن میں ہماری دلچسپی کی وضاحت ہو سکتی ہے خواہ وہ فن پارہ ہمیں رلانے والا ہی کیوں نہ ہو۔آکسفرڈ یونیورسٹی کی ایک ٹیم کے تجربے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ المیہ فلمیں یا دوسرے ڈرامائی فن پارے ہمارے اندر انڈورفنز نامی کیمیائی مادے کی گردش بڑھا دیتے ہیں اور یہ مادہ بہتر محسوس کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔تحقیق کے مطابق یہ عمل قدرتی درد کش کے طور پر کام کرتا ہے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے درمیان قربت پیدا کرتا ہے۔یہ تحقیق رائل سوسائٹی کے جرنل اوپن سائنس میں شائع ہوئی ہے۔اس تحقیق کے سربراہ محقق پروفیسر روبن ڈنبر کا کہنا ہے کہ ’جب ہم شکاری برادریوں کی طرح ایک ساتھ رہنے لگے اس وقت سے قصہ گوئی انسانی دلچسپی کا باعث رہی ہے۔‘فکشن سے لطف حاصل کرنا انسانی سماج کا خاصہ رہا ہے لیکن اب تک سائنسدانوں نے اس کے ارتقائی عمل پر بہت زیادہ تحقیق نہیں کی ہے۔پروفیسر ڈنبر نے کہا: ’فکشن کی عمرانیات کے تحت تعلیم اداروں میں وسیع پیمانے پر تعلیم دی جاتی ہے اور اسے انسانی سماج کا خاصا کہا جاتا ہے اور یہ تمام تہذیب میں یکساں ہے۔ تاہم ابھی تک فکشن سے اس وابستگی اور اس کے اثرات کی وسیع پیمانے پر ماہر نفسیات یا ماہر حیاتیات نے وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کی۔’اس کی سماجی وجوہات تو ہیں، جیسے اس سے ہم اپنی معلومات اور اقدار کو دوسری نسل تک پہنچاتے ہیں اور یہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ لیکن یہ پوری طرح اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ ہم بار بار اس کی جانب کیوں رجوع کرتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں۔‘آکسفرڈ کی ٹیم نے رضاکاروں کو ایک بے گھر شخص اور اس کے پریشان کن بچپن پر مبنی فلم ’اسٹوارٹ: اے لائف بیک ورڈ‘ دکھائی جبکہ دوسرے گروپ کو عام موضوعات پر دستاویزی دکھائی گئی پھر جانچ کرنے والی ٹیم نے فلم دیکھنے سے قبل اور بعد میں درد کی سطح کی جانچ کی جو کہ وہ انڈورفن کی جانچ کے لیے کرتے ہیں۔پروفیسر ڈنبر نے کہا جن میں سب سے زیادہ جذباتی اثرات نظر آئے ان میں درد میں کمی کی سطح بھی زیادہ دیکھی گئی اور اپنے گروپ سے لگاؤ کا احساس بھی زیاد تھا۔