ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے: شکیل صمدانی

ماں کی ناراضگی انسان کو جہنم تک لے جاسکتی ہے

علی گڑھ۔7مئی( پریس ریلیز)گرین کرسنٹ پبلک اسکول میں ’مدرسَ ڈے‘ کے موقع پر ایک پروگرام بعنوان ’’بچوں کی تعلیم اور ماؤں کی ذمہ داریاں‘‘کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں والدین اور طلبہ و طالبات نے حصہ لیا۔ مہمان خصوصی مسلم یونیورسٹی کے معروف استاد اور سرسید اویر نس کے صدر پروفیسر شکیل صمدانی نے اپنے پر مغز خطاب میں کہا کہ تعلیم زندگی ہے اور جہالت موت۔ ایک تعلیم یافتہ شخص کو گمراہ کرنا اور بے قوف بنانا بہت مشکل ہے جبکہ جاہل کو بآسانی بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ویسے تو دنیا کے سبھی مذاہب میں ماں کو بہت اونچا درجہ دیا گیا ہے لیکن مذہب اسلام نے ماں کو جو درجہ دیا ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں دیا گیا ہے۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور ماں کی ناراضگی انسان کو جہنم تک لے جاسکتی ہے اس لئے ایک سچے مسلمان کو اپنی ماں کی اسی طرح قدر کرنی چاہئے جس طرح اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے۔ پروفیسر شکیل صمدانی نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ میں ماں جاہل اور باپ غافل ہے، آج کی مصروف زندگی میں باپ کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کرسکے، اس لئے ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خلاء کو پر کرے اور بچوں پر دھیان دے۔ سچر کمیٹی کی روشنی میں ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کتنی ضروری ہے اس کا اندازہ قوم کو ہوچکا ہے اس لئے ماؤں کو اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف سب سے زیادہ دھیان دینا چاہئے۔مہمان خصوصی پروفیسر صمدانی نے کہا کہ دنیا میں اگر عظیم ترین ہستیوں کی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں سب سے زیادہ ان کی ماں کی تربیت اور قربانیاں رہی ہیں، چاہے وہ امام شافعیؒ رہے ہوں یا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ یا سرسید احمد خاںؒ یا علی برادران ہر جگہ ہمیں ماں کی تربیت اور قربانی ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔وہ لوگ خوش نصیب ہیں جنہیں اچھی ماں نصیب ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں تعلیم کا کافی زور و شور ہے اور چاروں طرف اسکول اور کالج کھلے ہوئے ہیں۔ آرٹی ای ایکٹ کے آنے کے بعد کمزور اور غریب طلبہ کو بھی کسی حد تک اسکولوں میں رسائی حاصل ہوگئی ہے، ہمیں اس قانون کا فائدہ اٹھانا چاہئے، انھوں نے بڑی تعداد میں موجود طلبہ و طالبات سے کہا کہ وہ اپنے والدین کا احترام کریں اور یہ ذہن نشین رکھیں کہ انھوں نے ہی انھیں دنیا میں چلنا سکھایا جب وہ اس قابل نہیں تھے۔ اخیر میں پروفیسر صمدانی نے خواتین سے گزارش کی کہ وہ گھر کے اخراجات میں کمی کریں، فضولیات سے بچیں، اور اس رقم کو بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کریں،اور ذاتی اور قومی مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے بجلی اور پانی کے خرچ کو محدودکریں۔ انھوں نے سبھی سے اس بات کا وعدہ لیا ہے کہ وہ فضول خرچی اور اصراف سے اجتناب کریں گے۔اسکول کے پرنسپل محترمہ صبیحہ انور محسن نے یوم مادر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انسانی رشتوں میں ماں کا رشتہ سب سے اہم ہے، ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے، ماں کیا سنتی ہے، کیا بولتی ہے، یہ ساری باتیں بچے کے دل و دماغ پرپورا اثر ڈالتی ہیں۔ اللہ نے ماں اور بچے کا بڑا انوکھا رشتہ بنایا ہے،اس رشتہ کو کسی شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’لبوں پہ کبھی اس کے بددعا نہیں ہوتی ۔ بس ایک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی‘‘۔اس موقع پر اسکول کے طلبہ وطالبات نے موقع کی مناسبت سے تقریر، نظم اور گروپ سانگ پیش کیا۔ علمہ عرفان، عمرا صدیقی نے اسپیچ، ماہر حسین، رومیزہ شکیل، منہا صدیقی، ام حفصہ نے نظم اور سلینہ آصف، شہباز، صدرہ جاوید، ماہین اور ارسلان جاوید نے ماں کی تعریف میں نظم پیش کی، جسے مہمانان نے بہت سراہا۔ قرأت سمیع الرحمن نے کی۔ مہمان خصوصی کو سلینہ عاصم نے پھولوں کا گل دستہ پیش کیا، سمرانہ مظفر نے نظامت کے انجام فرائض دیئے اور اسکول کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انور محسن نے مہمانان کا شکریہ اداکیا۔