موٹاپے سے ’دماغ بوڑھا‘ ہو جاتا ہے

*۔ عامر حسن
ایک تحقیق کے مطابق ایسے افراد جن کا وزن زیادہ ہوتا ہے اْن کا دماغ عمر کے مقابلے میں ’دس سال زیادہ بوڑھا‘ ہوتا ہے۔انسانی دماغ میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ معلومات کی رسائی والے حصے میں قدرتی طور پر سفید مواد ختم ہونے لگتا ہے لیکن کیمبرج یونیورسٹی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ دماغ میں اس مواد کا ختم ہونا اضافی وزن سے بڑھ جاتا ہے۔اسی وجہ سے زیادہ وزن والے 50 سالہ شخص کا دماغ ایک 60 سالہ پتلے شخص کے برابر ہوتا ہے۔محقیقن کا کہنا ہے کہ اس سے یہ پتہ چلا ہے کہ کیسے اضافی وزن دماغ کو متاثر کرتا ہے۔کیمبرج سینیٹر فار ایجن اینڈ نیورو سائنسس نے اس تحقیق کے دوران 20 سے 87 سال کی عمر والے 473 افراد کا معائنہ کیا اور ان افراد کو دو کیٹیگری موٹے اور پتلے میں تقسیم کیا گیا۔طبی جریدے جرنل آف نیورو بیالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج کے مطابق موٹے اور پتلے افراد کے دماغ میں سفید مواد کا حجم مختلف ہے۔زیادہ وزن کے حامل افراد میں اپنے ہم عمر پتلے افراد کے مقابلے میں سفید مواد کم ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فرق درمیانی عمر والے افراد سے لے بوڑھے افراد میں پایا جاتا ہے۔ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس عمر کے دوران انسانی دماغ کو زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ موٹاپے سے دماغ کی بظاہر ساخت میں تبدیلی تو نوٹ کی گئی لیکن اس سے معلومات یا سمجھ بوجھ پر کوئی فرق محسوس نہیں ہوا ہے۔ اس لیے ایسے افراد پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معائنہ کیا جائے کہ ڈیمنشیا جیسے امراض کیسے شروع ہوتے ہیں۔محقق ڈاکٹر لیزا رونن کہتی ہیں کہ ابھی یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ موٹاپا دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے یا نہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ موٹاپا بہت پیچدہ ہے ہم اس کے بہت سے مضر اثرات سے واقف ہیں لیکن اس سے دماغ پر کیا اثر پڑتا ہے اور دماغ موٹاپے کو کیسے لیتا ہے ہم اسی کا کو جاننے کے ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ریسرچر پروفیسر سڈل فاروقی کا کہنا ہے کہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دماغ میں وزن بڑھنے سے ہونے والی تبدیلی یا وزن میں کمی کرنے سے صحیح ہو سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے ایک نقطعہ ہے کہ وزن، صحت ورزش کے انسانی دماغ اور یاداشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
موٹاپے اور موت کے درمیان تعلق کے بارے میں ہونے والی سب سے بڑی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں قبل از وقت موت کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ غیرواضح ہے، البتہ دوسری تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ موٹے مرد ذیابیطس اور جگر میں خطرناک چربی بڑھ جانے کے مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔سائنس دانوں کے مطابق شمالی امریکہ اور یورپ میں تمباکو نوشی کے بعد موٹاپا موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔یہ تحقیق برطانوی طبی جریدے لانسٹ میں شائع ہوئی ہے۔سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے دنیا بھر میں ہونے والی 189 تحقیقات کو اکٹھا کر کے ان کا جائزہ لیا۔ ان تحقیقات میں تقریباً 40 لاکھ لوگوں نے حصہ لیا تھا۔انھوں نے ایسے لوگوں پر توجہ مرکوز کی جنھوں نے کبھی تمباکو نوشی نہیں کی تھی اور نہ ہی انھیں کوئی طویل مدت بیماریاں تھیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایسے لوگوں کو تحقیق میں شامل نہ کیا جائے جن کا وزن کثرتِ تمباکو نوشی سے گر رہا ہو یا انھیں دوسرے سنگین طبی مسائل کا سامنا ہو۔سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ مجموعی طور پر موٹاپے سے مرنے کا امکان بڑھ گیا، اور مردوں میں موت اور موٹاپے کے درمیان زیادہ مضبوط تعلق دیکھنے میں آیا۔انھوں نے بتایا کہ شمالی امریکہ میں موٹے لیکن باقی ہر اعتبار سے صحت مند مردوں میں 70 برس کی عمر سے پہلے مرنے کا خطرہ 29 فیصد ہوتا ہے، حالانکہ کہ عام وزن والے مردوں میں یہ خطرہ صرف 19 فیصد ہوتا ہے۔تحقیق کے مطابق شمالی امریکہ میں صحت مند وزن والی عورتوں کے اسی عمر سے پہلے مرنے کا خطرہ 11 فیصد، جبکہ موٹاپے کا شکار خواتین میں یہ خطرہ 14.6 فیصد ہوتا ہے۔تحقیق میں شامل سائنس دان پروفیسر رچرڈ پیٹو کہتے ہیں: ’یورپ اور امریکہ میں ایک چوتھائی قبل از وقت اموات تمباکو نوشی کے باعث ہوتی ہیں، اور ایسے لوگ تمباکو چھوڑ کر یہ خطرہ آدھا کر سکتے ہیں۔’تاہم اب موٹاپا یورپ میں ہر سات میں سے ایک، جبکہ شمالی امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک قبل از وقت موت کا سبب بن رہا ہے۔‘تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم وزن لوگوں میں بھی قبل از وقت موت کا خطرہ عام وزن والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔تاہم اس تحقیق کے نتائج کی مدد سے لوگوں کے لیے کسی قسم کی ہدایات مرتب کرنا مشکل ہے، کیوں کہ اس تحقیق سے تمباکو نوشوں اور امراض کا شکار افراد کو نکال دیا گیا تھا، حالانکہ یہ لوگ بھی معاشرے میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔