وادی میں قیام امن کی کوشش تیز

سری نگر ، 4 ستمبر (یو ا ین آئی) وادی کشمیر میں گزشتہ 58 روز سے جاری کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے اتوار کو گرمائی دارالحکومت سری نگر آنے والے کل جماعتی وفد نے اپنے دو روزہ دورے کے پہلے دن یہاں شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن کمپلیکس (ایس کے آئی سی سی) میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے تجاویز اور آراء حاصل کیں۔مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی قیادت والے اس وفد میں 20 سے زائد سیاسی جماعتوں کے 30 اراکین اور بعض سینئر سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔ وفد نے سب سے پہلے ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور اُن کے کابینی وزراء کے ساتھ ملاقات کرکے وادی کی موجودہ صورتحال کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔اس کے بعد وفد نے مختلف سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس، کانگریس، سی پی آئی ایم، پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ، عوامی اتحاد پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی نیشنلسٹ کے نمائندوں سے ملاقات کی۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ کل جماعتی وفد پیر کو بھی مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ملاقات کا سلسلہ صبح کے ساڑھے گیارہ بجے تک جاری رکھے گا۔ یہ وفد کل جموں جاکر وہاں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور دیگر تنظیموں کے اراکین کے ساتھ ملاقات کرے گا۔کل جماعتی وفد میں شامل اراکین میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی، امور صارفین و عوامی تقسیم کاری کے وزیر رام ولاس پاسوان ، ڈاکٹر جتیندر سنگھ ، سینئر کانگریس لیڈران غلام نبی آزاد، ملک ارجن کھرگے ، امبیکا سونی، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی، سی پی آئی ایم کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری ، سی پی آئی لیڈر ڈی راجا اور جے ڈی یو لیڈر شرد یادیو کے نام قابل ذکر ہیں۔اگرچہ چار رکنی کل جماعتی وفد جس میں سی پی آئی ایم کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری ، سی پی آئی لیڈر ڈی راجا، جے ڈی یو لیڈر شرد یادیو اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی شامل تھے ، نے علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک سے ملاقات کی کوششیں کیں، تاہم اُن کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں۔ جہاں چشمہ شاہی ہٹ نما جیل میں نظر بند میرواعظ اور ہم ہامہ پولیس میس میں مقید یاسین ملک نے ملاقات سے انکار کیا، وہیں مسٹر گیلانی نے وفد کے اراکین یچوری اور راجا کے لئے اپنی رہائش گاہ کے دروازے بند کردیے ۔اپنی پارٹی کے کچھ لیڈران کے ہمراہ کل جماعتی وفد سے ملاقات کے بعد نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ حکومت ہند کی طرف سے ماضی میں فالو اپ ایکشن کی کمی کے باعث کل جماعتی وفود اپنی ساکھ کھوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کنفیوژن کا شکار ہے کہ وہ حکومت کی قیادت کررہی ہیں یا اپوزیشن میں ہیں۔مسٹر عمر نے کہا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے لئے آج تک کی مرکزی سیاسی قیادت ذمہ دار ہے ۔ انہوں نے کہا ‘میرے والد (ڈاکٹر فاروق عبداللہ) نے کشمیر کے لئے اٹانومی کا مطالبہ کیا تھا، اگر تب کشمیر کو اٹانومی دی جاتی تو آج کشمیر کی صورتحال یہ نہ ہوتی۔ اب اگر آپ اٹانومی کی پیشکش کریں گے بھی تو آپ اُس کے یہاں بہت کم خریدار پائیں گے ‘۔مسٹر عبداللہ نے امید ظاہر کی کہ کل جماعتی وفد کے ممبران سال 2010 کی طرح حریت کانفرنس کے لیڈران کے ساتھ رسمی یا غیررسمی طور پر ملاقات کریں گے ۔ ریاستی کانگریس کے وفد نے پردیش کانگریس صدر غلام احمد میر کی قیادت میں کل جماعتی وفد سے ملاقات کی۔کانگریسی وفد نے کل جماعتی وفد کو بتایا کہ ‘کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس سے سیاسی طور پر ہی نمٹا جانا چاہیے ۔ انہوں نے وادی کے عوام کے دل اور دماغ جیتنے کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات کا مطالبہ کیا۔ ریاست کی دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی کشمیر کی موجودہ صورتحال سے باہرنکلنے کے لئے اپنی اپنی تجاویز کل جماعتی وفد کے سامنے پیش کیں۔ سری نگر روانہ ہوتے ہوئے وزیر داخلہ مسٹر راجناتھ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا ‘کل جماعتی وفد کے ساتھ سری نگر جارہا ہوں۔ ہم اُن افراد اور گروپوں کے ساتھ بات چیت کا ارادہ رکھتے ہیں جو وادی کشمیر میں امن اور معمول کے حالات چاہتے ہیں’۔اگرچہ کل جماعتی وفد کی آمد کا مقصد کشمیر میں امن وامان کی بحالی کے لئے یہاں مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص مختلف تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات کرکے تجاویزات حاصل کرنا ہے ، تاہم مبصرین کے مطابق اہم متعلقین بشمول حریت کانفرنس اور تجارتی انجمنوں کی جانب سے وفد کا بائیکاٹ کرنے کے اعلان کے بعد دورے کے ثمرآور ثابت ہونے کے امکانات مخدوش ہوگئے ہیں۔ کشمیر میں سب سے بااثر مانے جانے والے علیحدگی پسند راہنما سید علی گیلانی نے کل جماعتی وفد سے ملاقات کے بائیکاٹ کی اپیل جاری کرتے ہوئے کہا تھا ‘ایسی وفود کے پاس نہ کوئی منڈیٹ حاصل ہوتا ہے اور نہ مسئلہ جموں وکشمیر کو حل کرنے کی کوئی نیت ہوتی ہے ‘۔ ریاستی وزیر اعلیٰ محترمہ مفتی نے گزشتہ شام بحیثیت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی صدر علیحدگی پسند رہنماؤں اور کچھ مذہبی تنظیموں کے نام ایک کھلا خط لکھ کر اُن سے کل جماعتی وفد کے ساتھ ملاقات کرنے کی گزارش کی۔انہوں نے اپنے خط میں کہا تھا ‘جموں وکشمیر پیپلز ڈیمورکریٹک پارٹی کی صدر کی حیثیت سے مخاطب ہوکر آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ ریاست کے دورے پر آنے والے کل جماعتی پارلیمانی وفد کے ساتھ بات کرنے کے لئے آگے آئیں۔اس سے جمود کو توڑنے اور بامعنی سیاسی مذاکرات اور بحالی کے عمل کو شروع کرنے میں مدد ملے گی۔ میری پارٹی نے ہمیشہ اس بات پر یقین رکھا ہے کہ حریت کانفرنس ریاست کے امن اور ترقی کے لئے شراکت دار ہے ۔درحقیقت ہماری پارٹی کے بنیادی اقرار نامے میں تمام شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کو واحد راستہ قرار دیا گیا ہے ‘۔تاہم مسٹر گیلانی، میرواعظ اور یاسین ملک اس پر آج اپنا ردّعمل میں کہا کہ وفد کے پاس نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ ہی کوئی خاکہ ہے ۔ وادی میں ہڑتال، کرفیو اور سخت ترین بندشوں کا سلسلہ حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی 8 جولائی کو جنوبی کشمیر کے ککر ناگ میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاکت کے بعد سے جاری ہے ۔ اس دوران احتجاجی مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 73 عام شہری مارے گئے جبکہ 8 ہزار زخمی ہوئے ۔ احتجاجی مظاہروں کے دوران دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ ریاستی پولیس اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے 4500 دیگر زخمی ہوگئے ۔ اگرچہ گزشتہ 57 روز کے دوران وزیراعظم نریندر مودی، سینئر مرکزی کابینی وزراء ، ریاستی گورنر این این ووہرا اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کئی مرتبہ عوام سے امن کی اپیلیں کیں اور مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے دو مرتبہ وادی کا دورہ کیا، لیکن احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا۔کشمیر کی آٹھ بڑی تجارتی انجمنوں کے اتحاد ‘کشمیر انک’ نے کل جماعتی وفد کے ساتھ اپنی ملاقات کو وفد کی حریت لیڈران سے ملاقات کے ساتھ مشروط کیا تھا۔ جموں وکشمیر کولیشن آف سول سائٹی، کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ، کشمیر سنٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹیڈیز اور آل پارٹی سکھ کوارڈی نیشن کمیٹی نے بھی ارکان پارلیمنٹ کے وفد سے ملاقات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کل جماعتی وفد بھیجنے کے مسئلے پر گزشتہ ماہ ایک کل جماعتی میٹنگ طلب کی تھی جس میں وادی میں کل جماعتی وفد بھیجنے پر اتفاق ہوا تھا لیکن یہ طے ہوا تھا کہ پہلے اس کے لئے جموں کشمیر میں زمینی سطح پر تیاری کی ضرورت ہے ۔ حکومت کا کہنا تھا کہ وہ پہلے وزیر اعلی محبوبہ مفتی کے ساتھ اس بارے میں بات کرنا چاہتی ہے ۔محترمہ مفتی نے گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں وزیر اعظم سے ملاقات کی جس میں کل جماعتی وفد بھیجنے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے بعد وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور ریاست سے ممبر پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر جتیندر سنگھ کے ساتھ صلاح و مشورہ کے بعد چار ستمبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔دریں اثنا کشمیر کے معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے ایک تجزیہ نگار نے بتایا کہ انیس سو نوے کی دہائی سے لیکر آج تک تین مرتبہ پارلیمانی وفود وادی کا دورہ کرچکی ہیں اور تاحال کسی ایک بھی وفد کا دورہ ثمرآور ثابت نہیں ہوا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ایسے وفود سے محض کشیدگی کو ٹھنڈا کرنے کا کام لیا جاتا ہے اور اِن کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز کو صورتحال میں بہتری کے بعد ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ 1990 میں وی پی سنگھ کی قیادت والی مرکزی نیشنل فرنٹ سرکار نے اُس وقت کے نائب وزیر اعظم چودھری دیوی لال، 2008 میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے سرکار اور 2010 میں بھی من موہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے سرکار نے یہاں پارلیمانی وفود بھیجیں لیکن اِن وفود کی تجاویز پر بعدازاں کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔تاہم حریت کانفرنس نے ہر بار پارلیمانی وفود سے ملاقات کرنے سے انکار کیا ۔