پناما کیس میں نواز شریف کی کرسی بچی

اسلام آباد، 20 اپریل (یو این آئی): پاکستان کے سپریم کورٹ کی طرف سے 3-2 کے منقسم فیصلے کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف اپنی کرسی بچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے کیلئے کافی ثبوت نہیں ہیں۔ حالانکہ عدالت نے ایک ہفتے کے اندر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ۔ تاکہ نواز شریف اور ان کے اہل خاندان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی جانچ ہوسکے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 67 سالہ نواز شریف اور ان کے دو بیٹے حسن اور حسین جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں ۔ جے آئی ٹی میں فیڈرل جانچ ایجنسی ایف آئی اے ، قومی جوابدہی بیورو این اے بی کے علاوہ ایس ای سی پی ،آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران شامل ہوں گے۔جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے دو مہینے کا وقت دیاگیا ہے۔ہر دو ہفتے کے بعد جے آئی ٹی عدالت کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور 60 دن میں حتمی رپورٹ پیش کرے گی۔عدالت عظمی کا یہ حکم اگرچہ مطلق نہیں ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت گلزار احمد، اعجاز افضل خان، عظمت سعید اور اعجاز الحسن پر مشتمل بنچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی (جے آئی)، وطن پارٹی اور آل پاکستان مسلم لیگ کی دلیلوں کو سننے کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ ان تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں نے عدالت کے باہر بھی اس معاملے کو بدعنوانی کے خلاف ایک مہم کی طرح چھیڑ رکھا ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کیس میں آخری فیصلے کا اعلان کیا۔ انگریزی اخبار ڈان کے مطابق جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار نے دو مختلف نوٹوں کے ساتھ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، جبکہ دیگر تین ججوں نے جے آئی ٹی کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا۔ نیوزچینلوں کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اعجاز نے 540 صفحات کا فیصلہ تیار کیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے زور دیا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی اور قومی احتساب بیورو مؤثر طریقے سے اپنے کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بنچ نے جے آئی ٹی میں نیب، ایف آئی اے ، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس کے حکام کو شامل کرنے کا حکم دیا۔ بنچ نے کہا ایک ڈائریکٹر جنرل سطح کے ایف آئی اے افسر جے آئی ٹی کی قیادت کریں گے ۔ اس معاملے میں وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز، کیپٹن محمد صفدر (وزیر اعظم کے داماد) اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار مدعا علیہ ہیں۔