ڈگری سے اُتراکھنڈ تک

وزیر مالیات مسٹر ارون جیٹلی نے ٹھیک کہا ہے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ وزیر اعظم کی ڈگری کے معاملہ میں بہت نیچی سطح پر اُتر آئے ہیں۔ ہم بھی محسوس کررہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے درمیان اگر اختلاف ہو تو بھی ان کے شایانِ شان ہو۔ لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کجریوال کے ایک وزیر کی ڈگری کو فرضی ثابت کرانے کے لئے مرکزی وزیر داخلہ نے دہلی پولیس سے کیا کیا کرایا تھا؟ جو کچھ ٹی وی کے ذریعہ۔ وہ کم ہو یا بہت کم جو ہم نے دیکھا تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے دہلی کی موت اور زندگی اس میں ٹکی ہوئی ہے کہ وزیر کی ڈگری اصلی ہے یا نقلی؟ چار سپاہی ایک داروغہ اسے لئے لئے شہروں شہروں گھومے اور ثابت کرکے دم لیا کہ جہاں کہا تھا وہاں پڑھا نہیں بس ڈگری لے لی۔ اور کجریوال کو ذلیل کرنا تھا سو ذلیل کرلیا اور کجریوال نے وزیر سے استعفیٰ لے لیا۔
اور وہ جو اب سبرامنیم سوامی کو اس لئے راجیہ سبھا کا ممبر بناکر میدان میں اتارا ہے تو وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ سونیا خاندان کے اندر اور باہر کا معائنہ کرتے رہیں۔ کیا ارون جیٹلی صاحب سوامی صاحب سے معلوم کریں گے کہ وہ سونیا گاندھی کی ڈگریوں کے معاملہ میں کتنی نیچے اُترے تھے؟ اور کیا ہر وزیر اعظم اور ہر وزیر اعلیٰ کے لئے کسی کو وزیر بناتے وقت یہ بھی دیکھنا اور تحقیق کرنا ضروری ہے کہ اس کی ڈگری اصلی ہے یا فرضی؟ کجریوال کو جو ذلت اٹھانا پڑی اس کا انتقام لینے اور حساب برابر کرنے کے لئے وہ نیچے سے نیچے اُتر سکتے تھے اور اُتر گئے۔ اور 2014 ء کے الیکشن کو جیتنے کے لئے جو چائے والے کے بیٹے اور چائے والے بنے رہے۔ اب بتائیں کہ کتنے چائے والوں کے لڑکے بی اے اور ایم اے ہیں اور کہاں سے اتنے پیسے آئے کہ گجرات چھوڑکر دہلی یونیورسٹی میں چار سال میں بی اے کیا جس میں ایک سال فیل ہوئے کہ بارہ سو میں صرف چار سو نمبر آئے اور دوسری بار سولہ نمبر زیادہ لاکر پاس ہوگئے؟؟
اس کے باوجود کجریوال کہہ رہے ہیں کہ یہ ڈگری ان کی نہیں ہے بلکہ کسی نریندر مہاویر مودی کی ہے جو الور راجستھان کے رہنے والے ہیں اور ان سے بات کرنے پر انہوں نے کہا کہ لوگ انہیں بھی نریندر مودی کہتے ہیں جو اُن کے لئے فخر کی بات ہے۔ ہندوستان میں کیسے کیسے ڈگری ملتی ہے اس کا ایک نمونہ ہم نے دیکھا کہ ایک صاحب جو ایم اے کرچکے تھے۔ انہوں نے ایک کار پر PRESS لکھا ہوا دیکھا تو ہم سے معلوم کیا کہ ۔۔۔کی گاڑی پر PRACE کیوں لکھا ہے۔ ہم نے ہنس کر کہہ دیا کہ گاڑی بکری میں ہے۔ وہی صاحب جنہوں نے اردو میں ایم اے کیا تھا۔ ایک صاحب کا قصیدہ پڑھنے لگے اور بتایاکہ جب مولانا محمد علی جوہر جیل یا کہیں باہر چلے جاتے تھے تو وہ ہمدرد کے مدبر ہوتے تھے۔ اور وہ لکھنؤ اس لئے آئے تھے کہ وہ انہیں مدبر صاحب کے اوپر کام کرکے پی ایچ ڈی (ڈاکٹر) ہونا چاہتے تھے اور ہم سے ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی سے سفارش کرانا چاہتے تھے کہ وہ نگراں بننا قبول فرمالیں۔
اور نہ جانے کتنی ڈگری والوں کو ہم نے دیکھ کر شکر ادا کیا ہے کہ ہمارے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے۔ اروند کجریوال بہت پڑھے لکھے ہیں وہ دہلی کے وزیر اعلیٰ ہیں اور یہ ہو نہیں سکتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے آدمی یعنی وزیر اعظم پر وہ جھوٹا حلف نامہ داخل کرنے کا الزام لگائیں؟ اور نہ صرف الزام لگائیں بلکہ سب کو للکاریں کہ جس میں دم ہو وہ آئے اور الزام کو غلط ثابت کردے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وزیر اعظم اس کی صفائی دیں اور صفائی تو نہ امت شاہ یا جیٹلی کو بھی نہیں دینا چاہئے تھی۔ اس کی صفائی تو وہ مانی جائے گی جو دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر سے جاری کی جائے گی اور اس کا چپ رہنا الزام کو طاقت دے رہا ہے۔
اُتراکھنڈ میں کانگریس کے 9 ممبروں کے ناراض ہوکر نکل جانے کے بعد جو کچھ وزیرا عظم نے کیا وہ سیاسی اصطلاح میں ناتجربہ کاری کہی جائے گی۔ اپنے اقتدار کے بھوکے ساتھیوں کے اوپر اعتماد کرکے اپنے کو اور حکومت کو انہوں نے داؤ پر لگا دیا۔ جیسے بھی بن پڑے اُتراکھنڈ میں حکومت بنا لینے کی لالچ کے بجائے انہیں تدبر سے کام لینا چاہئے تھا۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ وہ دل بدلو قانون کے تحت نااہل قرار دیئے جاتے کیونکہ وہ ایک تہائی نہیں تھے۔ بی جے پی نے لاکھوں روپئے اس میں پھونک دیئے کہ وہ باغی کانگریسی بی جے پی کو ووٹ دے دیں۔ اور ان کے نااہل ثابت ہوجانے کے بعد بھی۔ وہ آزاد ممبروں اور بی ایس پی کے دو ممبروں کو عادت کے مطابق یہ لالچ دیتے رہے کہ وہ پنچایت الیکشن میں ان کو اس کا معاوضہ دے دیں گے۔ لیکن مس مایاوتی کے سامنے اُترپردیش کا الیکشن تھا وہ بی جے پی کو حمایت دے کر اپنی قبر نہیں کھود سکتی تھیں۔ اور ہر چند کہ فیصلہ کل سپریم کورٹ سنائے گا۔ لیکن چہرے کے رنگ بتا رہے تھے کہ شری نریندر مودی دو چار سیڑھی اور نیچے آگئے ہیں۔
نامزدگی کے وقت حلف نامہ میں انہوں نے 2014 ء سے پہلے کبھی اعتراف نہیں کیا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ یہ بھی شاید کجریوال کی وجہ سے ہوا کہ بنارس میں یہ اعتراف بھی کرلیا اور نام بھی بتادیا۔ ان کے سامنے ایک ان کا نعرہ بھی نام بتانے میں رکاوٹ تھا کہ بیٹی بڑھاؤ اور بیٹی پڑھاؤ۔ اگر کوئی ان سے معلوم کرلیتا کہ اور اگر بیٹی کو سنگھ کی شاکھاؤں کا پروردہ شوہر مل جائے تو پوری زندگی شوہر کے انتظار میں تڑپتی رہے یہ بھی برداشت کرو؟
اب تک تو کجریوال ہی مودی صاحب کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ اب کانگریس بھی حساب برابر کرنے کے لئے معلوم کرے گی کہ اُتراکھنڈ کو صدر کے ذریعہ اپنے قبضہ میں لے کر جو حکمرانی کا شوق پورا کرنا تھا وہ پورا ہوا یا نہیں؟ شہرت تو یہ ہے کہ ڈگری کے معاملہ میں وہ بھی کجریوال کے الزام سے متفق ہیں۔ اس کے باوجود وہ اُترپردیش میں بھگوا پرچم لہرانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ 282 ممبر اپنے اور حمایت ملنے کے بعد 300 ممبروں کی طاقت رکھنے والے وزیراعظم اگر ہر دن اوپر جانے کے بجائے دو چار اِنچ نیچے اُترتے نظر آئیں تو کیا یہ سوچنا غلط ہوگا کہ اب کسی اور کو ملک کا وزیر اعظم بنایا جائے۔ جو بابا رام دیو بھی ہوسکتے ہیں اور سبرامنیم سوامی بھی۔