یوپی میں 65اور اتراکھنڈ میں 68 فیصد ووٹ پڑے

لکھنؤ، 15 فروری (یو این آئی) اترپردیش اسمبلی کے دوسرے مرحلے میں 11 اضلاع کی 67 سیٹوں پر آج اکا دکا واقعات کے درمیان تقریبا 65.5 فیصد ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ریاست کے چیف الیکشن افسر کے دفتر کے مطابق تقریبا 65.5 فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ووٹنگ پرامن طریقے سے مکمل ہوگئی۔ کہیں سے کسی طرح کے ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ہے ۔دوسری طرف اتراکھنڈ میں پرامن طریقے سے ریکارڈ 68 فیصد پولنگ ہوئی۔ اترپردیش کے ایڈیشنل پولیس ڈائریکٹر جنرل (امن وقانون) دلجیت چودھری نے ریاست میں پرامن ووٹنگ ہونے کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ کہیں سے ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ملی۔سیکورٹی فورس کے جوان مکمل طور پر مستعد تھے ۔دوسرے مرحلہ کی پولنگ میں بریلی میں مرکزی وزیر سنتوش گنگوار، رام پور میں مختار عباس نقوی اور محمد اعظم خان، شاہ جہاں پور کے تلہر میں جتن پرساد اور امروہہ میں کرکٹر چیتن چوہان نے ووٹ ڈالے ۔اس مرحلے میں مجموعی طورپر 2.28 کروڑ ووٹروں میں سے 1.23 کروڑ مرد اور 1.04 کروڑ خواتین رائے دہندگان ہیں۔ ان کے لئے 23 ہزار سے زیادہ پولنگ مراکز بنائے گئے ہیں جن میں سے 5895 پولنگ مراکز کی نہایت حساس کے طورپر نشاندہی کی گئی ہے ۔ ان میں مرکزی سیکورٹی فورس کو تعینات کیا گیا ہے ۔پولنگ مراکز پر سات بجے سے پہلے ہی ووٹروں کی چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ امیدواروں کے حامیوں نے تو پولنگ مراکز کے باہر صبح سویرے ہی ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ ہلکی سردی کی وجہ سے ووٹنگ شروع ہونے کے وقت ووٹروں کی قطار چھوٹی تھی لیکن جوں جوں دھوپ کھلی ویسے ویسے قطار بڑھتی گئی۔ نوجوانوں میں پولنگ کے تعلق سے خاصا جوش و خروش نظر آرہا ہے ۔ کئی پولنگ مراکز پر خواتین کافی تعداد میں ووٹ ڈال رہی ہیں۔حساس پولنگ مراکز پر سیکورٹی فورس کی چوکسی کافی بڑھا دی گئی تھی۔ ملی جلی آبادی والے پولنگ مراکز پر خاص چوکسی برتی جا رہی تھی۔ کچھ پولنگ مراکز پرای وی ایم کے خراب ہونے کی اطلاع ملی، لیکن انہیں ٹھیک کر لیا گیا۔ اس سے پولنگ کے متاثر ہونے کی اطلاع نہیں ہے ۔اس مرحلے میں سوشلسٹ پارٹی (ایس پی) کے قدآور لیڈر اورریاست کے وزیر اعظم خاں ان کے بیٹے عبداللہ اعظم، وزیر محبوب علی، سابق مرکزی وزیر جتن پرساد، کرکٹر چیتن چوہان اور عمران مسعود سمیت 721 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے ۔اس مرحلہ میں 15 فیصد امیدواروں کے خلاف مجرمانہ معاملے درج ہیں جبکہ 36 فیصد کروڑپتی امیدوار انتخابی میدان میں تھے ۔ووٹنگ کے دوران ہیلی کاپٹر اور ڈرون کیمرے کے ذریعے قانون کی صورت حال پر نظر رکھی گئی۔ کئی مراکز پر ویڈیو رکارڈنگ اور کئی مراکز پر پولنگ کی لائیو ریج کی گئی۔اس مرحلھ میں سہارنپور، بجنور، مرادآباد، سنبھل، رام پور، بریلی، امروہہ، پیلی بھیت، لکھیم پور کھیری، شاہ جہاں پور اور بدایوں اضلاع کے بیہٹ، نکوڑ، سہارنپور نگر، سہارنپور، دیوبند، رام پور منی ہارن (محفوظ) گنگوہ، نجیب آباد، نگینہ (محفوظ)، بڈاپور، دھامپور، نہٹور (محفوظ)، بجنور، چاند پور، نورپور، کانٹھ، ٹھاکردوارا، مرادآباد دیہی، مرادآباد شہر، کدرکی، بلاری، چندوسی (محفوظ)، اسمولی، سنبھل، گنور، سوار، چمرووا، بلاس پور، رام پور، ملک( محفوظ)، بہیڈی، میرگنج، بھوجی پورا، نواب گنج، فرید پور (محفوظ)، بتھری چین پور، بریلی، بریلی کینٹ، آنولہ، دھنورا (محفوظ)، نوگاو سادات، امروہہ، حسن پور، پیلی بھیت، برکھیڈا، پورنپور (محفوظ)، بلاسپور، پلیا، نگھاسن، گولہ گوکرن ناتھ، شری نگر (محفوظ)، دھورہرا، لکھیم پور، کستا (محفوظ)، محمدی، کٹرا، جلال آباد، تلہر، پوایا (محفوظ)، شاہ جہاں پور، ددرول، بسولی(محفوظ)، سہسوان، بلسی، بدایوں، شیخ پور اور دانتاگنج اسمبلی سیٹوں پر پولنگ ہوئی۔اس مرحلے میں مغربی اتر پردیش کے 11 اضلاع کی بیشتر نشستوں پر مسلم ووٹ ہار جیت میں اہم کردارادا کرسکتے ہیں۔ تقریبا 70 فیصد نشستوں پر 30 فیصد سے زیادہ مسلم رائے دہندگان ہیں۔ صرف رام پور ضلع میں 70 فیصد مسلم آبادی ہے ۔ سیاسی جماعتوں نے 15 سیٹوں پر 64 مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے جن میں ایس پی ۔کانگریس، بی ایس پی، راشٹریہ لوک دل اور دیگر پارٹیاں شامل ہیں۔سال 2012 کے اسمبلی انتخابات میں 67 نشستوں میں سے سماجوادی پارٹی نے 34، بی ایس پی نے 18، بی جے پی نے دس، کانگریس نے تین اور دیگر نے دو پر جیت حاصل کی تھی۔ ان علاقوں میں انتخابات میں امن و قانون اور ترقی سیاسی جماعتوں کا اہم ایجنڈا رہا ہے ۔ بی جے پی نے الیکشن میں فرقہ وارانہ فسادات، مظفرنگر فسادات، سلاٹر ہاؤس جیسے مسائل کو اٹھایا ہے ۔ دوسری جماعتوں نے بھی مرکزی حکومت اور بی جے پی کے خلاف وعدہ خلافی کا معاملہ اٹھاکر اسے گھیرنے کی کوشش کی ہے ۔دوسرے مرحلے میں حساس بجنور، سنبھل، رام پور، مرادآباد، بریلی اور بدایوں اضلاع میں پولنگ ہوئی۔ انتخابی مہم کیلئے تمام جماعتوں نے اپنے بڑے لیڈروں کو انتخابی میدان میں اتارا۔ سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں جم کر انتخابی مہم چلائی۔ اپنے امیدواروں کے حق میں وزیر اعظم نریندر مودی بجنور اور بدایوں میں عوامی ریلیاں کر چکے ہیں ۔ بی ایس پی صدر مایاوتی، کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے کئی عوامی جلسے کئے ہیں اور ایس پی صدر اور اتر پردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے بھی کئی عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔قنوج پارلیمانی سیٹ سے ایس پی ممبر پارلیمنٹ اور وزیر اعلی اکھلیش یادو کی بیوی ڈمپل یادو، معروف اداکارہ اور ایس پی کی راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ جیا بچن کئی عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔پہلے اور دوسرے مرحلے کے انتخابات میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی، ان کی بیٹی پرینکا گاندھی اور ملائم سنگھ یادو نے انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا۔ راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) نے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں 40 امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے ۔ پارٹی صدر اجیت سنگھ، ان کے بیٹے جینت چودھری اور بہو چارو چودھری انتخابی تشہیر میں شامل رہی تھیں۔پہلی بار ان انتخابات میں اسد الدین اویسی کی قیادت والی آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے ۔دوسرے مرحلے کے انتخابات میں امروہہ سے ایس پی امیدوار اور اتر پردیش کی حکومت میں وزیر محبوب علی میدان میں تھے ۔ سہارنپور کی دیوبند سیٹ سے کانگریس کے موجودہ رکن اسمبلی ماوی علی ایس پی سے الیکشن لڑ رہے تھے ۔ بی جے پی لیڈر اور 1989 سے سات بار کے رکن اسمبلی سریش کمار کھنہ شاہ جہاں پور صدر سیٹ سے ایک بار پھر انتخابی میدان میں تھے ۔اس مرحلے میں عمران مسعود سہارنپور کی نکوڑ اسمبلی سیٹ سے کانگریس کے امیدوار تھے ۔اس مرحلہ میں سابق مرکزی وزیر جتن پرساد شاہ جہاں پور ضلع کی تلہر سیٹ سے انتخابی میدان میں تھے ۔مسٹر جتن پہلی بار اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ ظفر علی نقوی کے بیٹے سیف علی نقوی لکھیم پور کھیری ضلع کے پلیا سیٹ سے اپنی قسمت آزما رہے تھے ۔رام پور ضلع سے ایس پی کے قدآور لیڈر اور اتر پردیش کی حکومت میں وزیر اعظم خاں اور ان کے بیٹے عبداللہ بھی دوسرے مرحلے کے انتخابات میں اپنی قسمت آزما رہے تھے ۔ مسٹر اعظم رام پور سیٹ سے سات بار رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔پہلے مرحلے کے انتخابات میں مغربی اتر پردیش میں حساس 73 سیٹوں پر گزشتہ 11 فروری کو پرامن پولنگ مکمل ہوئی تھی۔ پہلے مرحلے میں 64.22فیصدووٹنگ ہوئی تھی۔ سات مراحل میں ہو رہے انتخابات کے ووٹوں کی گنتی ایک ساتھ 11 مارچ کو کرائی جائے گی۔