اسلام کی امیج کو بدلنے کی ضرورت ہے

اسلام کا مطلب کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب آج کے اکثر مسلمان نہیں جانتے اور وہ بھی اسلام کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے میڈیا انھیں دکھانا چاہتا ہے۔ دنیا بھر میں اسلام کو تشدد، تخریب اور دہشت سے جوڑ کر پیش کیا جارہاہے اور مسلمان اپنی کم علمی، وسائل کی کمی اور حکمت عملی کی عدم موجودگی کے سبب اس کا توڑ کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم مسلمان ہیں مگر ہم میں سے کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ’’ اسلام ‘‘کا مطلب کیا ہوتا ہے اور ’’مسلم‘‘ کسے کہتے ہیں؟ ’’اسلام‘‘عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’’گردن
جھکانا‘‘ ’’اطاعت کرنا‘‘اسے اللہ کی مرضی کے آگے’’خودسپردگی‘‘بھی کہہ سکتے ہیں۔انگلش میں اس کے ترجمے کے لئے Submissionکا لفظ استعمال کرتے ہیں۔اسی سے ’’مسلم‘‘ بنا ہے جس کا مفہوم ہے’’اطاعت کرنے والا‘‘ ’’گردن جھکانے والا‘‘ یا اللہ کی مرضی کے آگے ’’خودسپردگی کرنے والا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی خواہشات کو چھوڑ کر خود کو اللہ کی مرضی کے تابع کردے اور اس کے آگے سر جھکادے وہ ’’مسلم‘‘ ہے۔ اس کا مفہوم توجہ طلب ہے۔ اگر ٹھیک سے غور نہیں کیا تو ایک بار پھر پڑھئے اور غور کیجئے۔ اطاعت کرنے والا اور گردن جھکانے والامظلوم تو ہوسکتا ہے مگر ظالم نہیں ہوسکتا ،کیونکہ ظالم کی گردن ہمیشہ فخر وغرور سے تنی ہوتی ہے ۔ اس کا سر جھکا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اٹھا ہوا ہوتا ہے۔ مسلم وہ ہوتا ہے جس نے اللہ کی غلامی کا پٹہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہو اور خود کو اس کے احکام کا تابع بنا چکا ہو۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ اس سے کسی کی جان لینے کا کام سرزد ہو؟ جان دینا اور جان لینا تو اللہ کا کام ہے۔ جبار اور قہار اللہ کے صفاتی نام ہیں اور ان صفات کا حامل اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔جبر اور قہر کی صفات مومن و مسلم میں کیسے ہوسکتی ہیں جو اللہ کے لئے مخصوص ہیں؟ مسلمان، ظالم کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان، قاتل کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان، خونی کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان، فسادی کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تخریب کار کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تمام باتیں اسلام وایمان کے منافی ہیں۔
امن وسلامتی کا پیغام،سلام
جب مسلمان ملتے ہیں تو انھیں حکم ہے کہ آپس میں سلام کریں۔ قرآن میں فرشتوں کی تحیت بھی یہی بتائی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپس میں سلام کو رائج کرو۔ کسی کو پہچانو یا نہ پہچانو، اسے سلام کرو۔ محبت اور بھائی چارہ کی اشاعت کا ذریعہ آپ نے سلام کو بتایا۔ سلام کے لئے جو الفاظ مقرر کئے گئے ہیں وہ ہیں’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہہ‘‘ جس کا مفہوم ہے کہ تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں وبرکتیں ہوں۔گویا ملتے ہی اس خواہش اور دعا کا اظہار کہ میں تمہاری سلامتی اور بھلائی کا چاہنے والا ہوں۔ تم میری جانب سے امن وسلامتی سمجھو ، کوئی اور تمہارا برا چاہے، اسے میں برداشت نہیں کرونگا۔ سلام کے جواب میں دوسرا شخص بھی اسی قسم کے الفاظ دہراتا ہے ۔ گویا ایک طرف سے امن وسلامتی کا پیغام دیا گیا اور دوسری جانب سے بھی اسی قسم کے پیغام کا اعادہ کیا گیا۔ امن وامان کے ان پیغاموں کا تبادلہ اس خواہش کا اظہار ہے کہ تم پر امن ماحول میں رہو ، اچھے رہو، خوش رہو اور تمہارے متعلقین، رشتہ دار واحباب کی طرف سے بھی کوئی ایسی خبر نہ سنائی دے جو تمہیں رنجیدہ کرنے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ سلامتی صرف اسی ایک شخص کے سلامت رہنے سے نہیں آسکتی بلکہ ان سبھوں کے ساتھ بھی لازم ہونی چاہئے، جن کی بے سکونی آدمی کے لئے بے چینی کا سبب بن جائے۔
سلام کے الفاظ اسلامی معاشرے کی پہچان ہیں اور اِن سے عموماًوہ لوگ بھی واقف ہوتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے کچھ خاص واقفیت نہیں رکھتے ہیں۔گویا سلامتی اور نیک خواہشات کے الفاظ ہی سے ہماری پہچان بننی چاہئے مگر افسوس کہ آج ہماری شناخت اس کے برعکس بنتی جارہی ہے۔ ان دنوں ہم امن سے نہیں بدامنی سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہم سلامتی سے نہیں تشدد اور
تخریب کاری کی شناخت سے جانے جاتے ہیں۔
کیا ہم مسلمان ہیں؟
رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔ اس قولِ رسول کی روشنی میں دیکھیں تو آج ہم میں کتنے لوگ ہیں جو مسلمان کہے جانے کے حقدار ہیں۔ہماری اذیتوں سے نہ ہمارے گھر اور محلے والے محفوظ ہیں، نہ پڑوسی اور رشتہ دار بچتے ہیں۔ اپنے عہد کے معروف صوفی حضرت ابو حمزہ بغدادی کا قول ہے:
’’جب تمہارا جسم تم سے سلامتی پائے تو جان لو کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا اور جب لوگ تم سے محفوظ رہیں تو جان لو کہ تم نے ان کا حق ادا کردیا۔،، کشف المحجوب،صفحہ ۲۳۰
یعنی خود کو سلامت رکھنا اپنے جسم کا حق ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی دوسروں کی بھی بھلائی چاہے۔یہ دوسرں کا حق ہے کہ وہ ہماری اذیت اور تکلیف سے محفوظ رہیں۔ سماج کی خیر خواہی اور خدا کے بندوں کی بھلائی ، یہ وہ انسانی صفات ہیں جن پر صوفیہ خاص طور پر دھیان دیتے تھے، کیونکہ یہی باتیں اسلام کی روح ہیں اور قرآن واحادیث کی تعلیمات کا حاصل ہیں۔
یہی ہے عبادت ، یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
پڑوسیوں کے لئے امن وسلامتی کی خواہش
قرآن کریم میں پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خاص تاکید فرمائی ہے۔ پڑوسی مسلمان ہوسکتا ہے اور غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے مگر اس کے ساتھ مذہبی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا ہے۔امن وامان کے پیامبر صوفیہ کرام کی تعلیمات اور اعمال میں اس قبیل کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اور ان کا یہی حسن عمل تھا کہ اسلام کی دنیا بھر میں اشاعت ہوئی۔ حضرت احمد بن حرب رحمۃ اللہ علیہ ایک صوفی گزرے ہیں ان کا ایک واقعہ تذکرۃ الاولیاء میں درج ہے کہ انکے پڑوس میں ایک پارسی رہتا تھا، جس کا نام بہرام تھا ۔ ایک بار بہرام کا مالِ تجارت ڈاکووں نے لوٹ لیا تو حضرت احمد بن حرب اپنے دوستوں کے ہمراہ اس کی دلجوئی کے لئے گئے۔ بہرام آپ کی آمد سے بہت خوش ہوا اور آپکی باتیں سن کر کہنے لگا کہ اس معاملے میں تین شکر کرتا ہوں۔ ایک تو اس بات کا کہ ڈاکو میرا مال لوٹ کر لے گئے لیکن میں نے کسی کا مال نہیں لوٹا ۔دوسرے اس بات کا کہ وہ آدھا مال لے گئے اور آدھا باقی ہے ۔ تیسرے اس بات کا کہ وہ دنیا لوٹ کر لے گئے مگر میرا دین محفوظ ہے۔ حضرت احمد بن حرب نے اس کی معقول باتیں سن کر اپنے دوستوں سے فرمایا کہ اس بات کو لکھ لو مجھے بہرام سے آشنائی کی بو آتی ہے۔پھر کچھ سوال و جواب کے بعد بہرام کے ایمان لانے کی بات درج ہے۔
اللہ رحیم ہے اور رحمت چاہتا ہے
اسلام اپنے نام کی طرح امن وامان کا مذہب ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کے سامنے جس خدا کا تصور پیش کرتا ہے، وہ رحیم وکریم ہے۔ وہ غفار وستار ہے اور رحمٰن ورؤف ہے۔ ان ناموں کی صفات کے لحاظ سے احساس ہوتا ہے کہ وہ مہربانی کرنے والا ہے۔ وہ کرم اور بخشش کرنے والا ہے اور بدامنی وتشدد ،بے رحمی اور ظلم کو پسند نہیں کرتا۔یہی سبب ہے کہ جن لوگوں نے اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھا، اللہ ورسول کے احکام کو اپنی زندگی میں اتارا ،انھوں نے انسان ہی نہیں جانوروں کے ساتھ بھی رحم وکرم کا معاملہ کیا اور آج جو لوگ اسلام کی آدھی ادھوری تعلیم پارہے ہیں، وہ اللہ کی زمین کو فتنہ وفساد کا مسکن بنائے ہوئے ہیں۔حدیث میں ہے:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ،ایک شخص سفر میں جارہا تھا کہ اسے راستے میں سخت پیاس لگی ،اسے قریب ہی ایک کنواں نظر آیا ،جب کنویں سے پانی پی کر چلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے زبان نکالے پڑا ہے ۔اسے خیال آیا کہ اسے بھی میری طرح پیاس لگی ہوگی ۔وہ واپس گیا ،منہ میں پانی بھرکر اس کے پاس آیا اور اسے پلا دیا ، اللہ تعالیٰ نے محض اسی رحم کی بدولت اس کے گناہوں کو معاف کردیا ۔،،
(مکاشفۃ القلوب ،باب ۔۱۸)
آج جس قدر انرجی کا استعمال فتنہ وفساد پھیلانے میں کیا جارہا ہے اگر اسی قوت کے ساتھ اسلام کے پیام امن کو عام کیا جاتا،مہربانی اور رواداری کا عملی سبق دیا جاتا اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے روبرو کرایا جاتا تو دنیا اسلام کی گرویدہ ہوچکی ہوتی۔ اسلام جس رحم وکرم کی تعلیم دیتا ہے اس کی ایک مثال ہندوستان کے مشہور عالم دین و صوفی حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر میں دیکھا جاسکتا ہے۔آپ نے اپنے والدشاہ عبد الرحیم علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھا ہے:
’’ایک دفعہ اکبرآباد میں میں بارش ہوئی اور ہواؤں کے موسم میں سوار ہوکرجارہاتھا۔ دیکھا کہ راستے میں ایک جگہ کتے کا پلاّ دلدل میں ڈوب رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اس کی دردناک آواز سے میرا دل بھر آیا۔ میں نے خادم سے کہاکہ جلدی جاؤ اور اس پلّے کو باہر نکالو۔ اس نے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے انکار کیا ۔ میں جلدی جلدی گھوڑے سے اترا، کپڑے اوپرچڑھائے اور پانی میں اترنے کے لئے آگے بڑھا۔ خادم نے جب یہ صورتحال دیکھی تو چار وناچار وہ خود آگے بڑھااور پلے کو باہر نکال لایا۔ قریب ہی ایک حمام تھا وہاں سے گرم پانی لے کر میں نے اس کونہلایا، طباخی سے روٹی اور شوربا لے کر اسے خوب کھلایا۔ پھر میں نے کہا یہ کتا اس محلے کا ہے، اگر اس محلے والے اس کی خبر گیری کا ذمہ اٹھائیں تو بہتر ورنہ ہم اس کو اپنے محلے میں لے جائیں گے۔طباخی نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی، چنانچہ یہ کتا اس کے حوالے کر کے میں رخصت ہوگیا۔‘‘
(انفاس العارفین،صفحہ۱۱۸ )
انسان خود انسان کی عزت وآبرو کو نہیں سمجھ رہا ہے، ایسے میں وہ کسی جانور اور وہ بھی ذلیل ترین جانور کی آبرو کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔ اسلام تو رحم وکرم کا ہی نام ہے۔ مہربانی اور رحم دلی کا ہی نام ہے۔ یہاں تخریب کاری اور تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور آج
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی یہی صورت دنیا کے سامنے پیش کی جائے۔ یہی حقیقی اسلام ہے۔ یہی صوفیہ اور اللہ والوں کے کردار وعمل میں نظر آتا ہے۔ یہاں نفرت نہیں محبت ہے۔ یہاں تشدد نہیں اخوت ہے۔ یہاں بدامنی نہیں ،امن وامان ہے۔
دہشت کے خلاف علماء اٹھ رہے ہیں
بھارت سمیت ساری دنیا میں علماء کا ایک بڑا طبقہ اسلام کی موجودی امیج بدلنے کے لئے کوشاں ہے۔مصر میں علماء کا ایک طبقہ اس خون خرابے کے خلاف متحد ہورہا ہے اور ساری دنیا میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس کی مذمت کر رہا ہے۔ سعودی عرب جہاں علماء کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتے ہیں اور انھیں سرکاری لائن پر ہی بیان دینے کی اجازت ہوتی ہے یہاں بھی انتہاپسندی کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے اور آئے دن علماء کے بیانات اور مفتیان کرام کے فتوے آتے رہتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ شدت پسندی اسلام کے خلاف ہے اور عام مسلمانوں کو اس کی مخالفت میں آنا چاہئے۔ حالانکہ یہ خیال بھی عام رہا ہے کہ سعودی حکومت کی پالیسایاں اور اس کے نظریا ت بھی تشدد اور انتہاپسندی میں کو پھیلانے میں معاون رہے ہیں۔ آج یہاں کے تمام جھوٹے بڑے علماء اور سرکاری وغیر سرکاری مفتیان کرام انتہاپسندی کو مسترد کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی علماء کا ایک طبقہ انتہا پسندی کے خلاف ہمیشہ سے آواز اٹھاتا رہا ہے ۔ مولانا طاہرالقادری اس سلسلے میں کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور اس کے خلاف عوام کو متحد کرنے کی کوششیں کرچکے ہیں۔ اس قسم کے نظریات رکھنے والے علماء کی کوئی کمی نہیں ہے مگر نہ جانے خرابی کہا ں ہے کہ پاکستان میں اعتدال پسندوں کے بجائے انتہا پسندوں کو ہی بڑھاوا ملتا ہے۔ یہاں دن بہ دن شدت پسندوں کی تعداد پڑھتی جارہی ہے اور اعتدال پسند کم ہورہے ہیں مگر پشاور کے حالیہ حملوں کے بعد سے پاکستان میں بھی علماء کا ایک بڑا طبقہ سامنے آرہا ہے اور پوری قوم اتحاد کے راستے پر چلنے کے لئے بے چین نظر آرہی ہے۔ اس حملے کو پاکستان کے اتحاد وسالمیت ہی نہین بلکہ اسلام پر بھی حملہ مانا گیا ہے ۔
اسلام کا سب سے بڑا دشمن مسلمان
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام محبت اور بھائی چارہ کا مذہب ہے۔ اعتدال کا دین ہے اور یہ خون خرابے کے سخت خلاف ہے مگر یہ عجیب بات ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کے نام پر خون خرابہ ہورہا ہے۔ پاکستان، افغانستان، عراق، شام، مصر، فلپائن،او ر اقریقہ تک اسی قسم کا ماحول دیکھا جارہا ہے۔ کہیں لوگون کو قتل کیا جارہا ہے تو کہیں ، اسکولوں پر حملے ہورہے ہیں۔ کہیں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو کہیں لوگوں پر سختیاں کی جارہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام نے جب محبت بھائی چارہ کی دعوت دی ہے اور قرآن وسیرت نبوی میں کہیں بھی نفرت کی بات نہیں کہی گئی ہے تو پھر اسلام کے نام پر یہ سب کیوں کیا جارہا ہے؟ اگر دنیا کے کسی ایک ملک کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ وہاں اسلام کی غلط تشریح کی گئی اور اسلامی تعلیمات کو نہیں مسجھا گیا تو باقی ملکوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا ہر ملک میں اسلامی تعلیمات کا غلط مفہوم نکالا جارہا ہے اور قرآن وحدیث کی غلط تعبیریں پیش کی جا رہی ہیں؟
سوال یہ بھی ہے کہ آخر گڑ بڑ شروع کہا سے ہوئی ہے؟ کیا علماء اور مفسرین نے اسلام کی جو تشریحات پیش کی ہیں وہ کسی خاص پسِ منظر میں تھیں جنھیں ہر کسی نے اپنی ضرورت کے مطابق گڑھ لیا ہے؟ کیا عہد وسطیٰ میں بادشاہوں کے زیر اثر اور تب کے حالات کے مطابق علماء نے اسلام کا مفہوم پیش کیا تھا جسے ہم جوں کا توں بیان کرتے ہیں ،اسی کا اثر ہے کہ آج مسلمانوں میں اسلام کے نام پر دشہت گردی کو فروغ مل رہا ہے؟ ہمیں آج اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کی دنیا کے سامنے اسلام کی شکل آرہی ہے ، وہ بہت ہی بھیانک ہے اور ایک مسلمان کے ناطے ہم پر ضروری ہے کہ ہم آج کے حالات کے مطابق اسلام کو پیش کریں۔ اسلام کی فطرت میں لچک ہے جو ہر قسم کے حالات میں انسان کے لئے ہے مگر آج جس اسلام کو ہم دیکھ رہے ہیں اس میں کوئی لچک نہیں ہے اور اس سے غیر مسلم ہی نہیں خوداسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
بچوں کی صحیح تربیت
آج کی ضرورت صرف اسی قدر نہیں ہے کہ ہم دشہت گردانہ حملوں کی مذمت کردیں اور خون خرابہ کو غیر اسلامی بتاکر گھر میں بیٹھ رہیں بلکہ اس معاملے میں زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اسلام کی تعلیم کے نام پر جو کچھ اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں ،اس میں کہاں کچھ گڑبڑی ہے۔ مدرسوں کا نصاب تعلیم سینکڑوں سال پرانا ہے اور یہ کتابیں جس دور میں لکھی گئی تھیں ،اس وقت کے حالات کے تقاجوں اور ضرورتوں کے مطابق لکھی گئی تھیں مگر آج حالات الگ ہیں اور آج کے دور کے مطابق تشریحات کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں مدرسوں کے نصاب تعلیم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس بات کی بھی کہ اس میں ان تمام چیزوں کو شامل کریں جو اسلام کو آج کے حالات کے مطابق پیش کرسکے۔ اسلام نے انسانی حقوق پر بہت زور دیا ہے اور احترام انسانیت سکھایا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث کے اندر جس قدر نماز روزے کی تاکید آتی ہے احترام انسانیت کا سبق بھی اس کم نہیں ہے مگر ہمارا تمام زور نماز، روزے پر ہوتا ہے اور ہم کہیں نہ کہیں ان حقوق کو نظر انداز کرجاتے ہیں جو انسانوں کے انسانوں پر ہیں۔ ہمارا پورا زور حقوق اللہ پر ہوتا ہے اور حقوق العباد کہیں پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ حقوق اللہ میں اگر کمی ہوگئی تو اللہ کی مرضی پر ہے۔ وہ چاہے تو معاف کردے مگر حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق وہ کسی بھی حال میں معاف نہیں کرتا جبکہ بندہ خود معاف نہ کردے۔ ظاہر ہے کہ خون خرابہ اور انتہاپسندی بندوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے دائرے میں آتے ہیں، اور آج حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو انسانی حقوق سے آگاہ کریں، اس کے لئے مدرسوں میں خصوصی نصاب ہونا چاہئے اور اس پر زور دینا چاہئے۔ ایسی قرآن آیات اور احادیث کوایک جگہ جمع کرنا چاہئے اور انھیں خاص طور پر بچوں کی نظر میں لانا چاہئے جن سے وہ بندوں کے حقوق سے آگاہ ہوں۔ اسلام نے تو جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کا حکم دیاہے مگر کبھی ہماری نظر اس جانب نہیں جاتی ہے۔ اسی طرح جو بچے مدرسے نہیں جاتے ہیں ان کی تعلیم وتعلم کی ذمہ داری ان کے والدین کے اوپر ہے کہ وہ انھیں انسانی باتوں سے آگاہ کریں اور ھقوق انسانی کے تعلق سے تیار کریں۔

ہمیں کونسا اسلام چاہئے؟
دنیا کے دوسرے ملکون کے مقابلے بھارت میں دہشت گردی کا زور بہت کم ہے اور اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ یہاں اسلام کی اشاعت کا کام صوفیہ کرام نے کیا تھا جو انسانیت میں گہرا بھروسہ رکھتے تھے اور ان کی نظر میں انسان ، انسان تھا خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔وہ لوگوں میں تفریق نہیں کرتے تھے اور ان کی تعلیمات کا حصہ تھا محبت، انسانیت اور بھائی چارہ۔ آج صدیوں بعد بھی اس کا اثر موجود ہے اور مسلمانوں کے اندر انتہاپسندی اور دہشت گردی بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ آج ایک بار پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم صوفیہ کی تعلیمات کو کتابوں سے باہر نکالیں اور عوام وخواص تک پہنچائیں۔ ہمیں آج جس اسلام کی ضرورت ہے وہ بادشاہوں، حکمرانوں اور صاحبانِ اقتدارکا اسلام نہیں ہے بلکہ ان اللہ والوں کا اسلام ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی خانقاہوں سے امن ومان اور بھائی چارہ کا پیغام عام کیا۔ ہمیں غیاث الدین بلبن، علاء الدین خلجی اور اکبر کا اسلام نہیں چاہئے ہمیں تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاء،حضرت مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری کا اسلام چاہئے۔