احمد رضا خاں ؒ نے بھی ڈھول ،باجے کے ساتھ نعتیہ کلام پڑھنے کو ’ناجائز‘ قراردیا:مولانا اسامہؔ

کانپور2 مئی ( پریس ریلیز)جمعیۃ علماء شہر کانپور کے زیر اہتمام ہونے والے سہ روزہ عظیم الشان اجلاس معراج النبی ﷺ منعقدہ 29،30اپریل و یکم؍ مئی بمقام رجبی گراؤنڈ پریڈکانپور کے آخری دن مولانا انوراحمد جامعی کی سرپرستی میں مشاعرہ نعت ومدح صحابہ کا انعقاد ہوا۔ مشاعرہ سے قبل جمعیۃ علماء کانپور کے جنرل سکریٹری مولانا محمد متین الحق اسامہ صاحب قاسمی قائم مقام قاضی شہر کانپور نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ آج کے دور میں ہم دینی معاملوں میں کچھ زیاد ہ ہی غفلت کا شکار ہیں ۔ ہمیں نبی ﷺ، صحابہؓ ، بزرگان دین اور اولیاء اللہ کی عزت کرنی چاہئے، مدارس و مساجد کا جیسا حق ہے ویسا ہی احترام کرناچاہئے ۔نعت کا اپنا ایک موضوع ہے، نعت ایک عبادت ہے ۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی تعریف ،توصیف اور محبت کا اظہار عبادت ہے، اور عبادت کی اپنی شرائط ہیں ۔اسلامی شریعت نے ہر جگہ ہمیں نظام دیا ہے،اسی میں نماز کا طریقہ، روزہ کی شرائط، حج کا طریقہ بتایاہے۔ اسی طرح اگر حضور ﷺ کی شان میں نعت کہہ رہے تو اس میں بھی ہمارے لئے ایک طریقہ متعن ہے ،یہ نہیں کہ ہم جس طرح چاہیں ڈھول تاشے کا استعمال کرتے ہوئے گانے کے اندا ز میں نعت پڑھ لیں۔اس سے نعت کی توہین ہوتی ہے کیونکہ اگر ہم گانے کی طرز پر میوزک کے ساتھ نعت پڑھیں گے تو سننے والے کا ذہن نبی کی محبت کی جانب نہیں بلکہ بے معنیٰ گانا گانے والوں کی طرف جائے گا۔ اس لئے اگرکہیں ناچنے گانے والوں کی طرز کی نعت ہے تو فوراً اپنے موبائلوں اور گھروں سے نکال دیں۔ہم سمجھیں گے کہ ہمیں ثواب مل رہا ہے لیکن اللہ کے پاس ہماری پکڑ آئے گی۔اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں ؒ کے فتویٰ رضویہ کی بات کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص نے اعلیٰ حضرت سے کسی عرس کا تذکرہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ اس میں ڈھول تاشے اور باجا بجا کر حضرت محمد ﷺ، خواجہ معین چشتی ؒ ،نظام الدین اولیاؒ اور دیگر بزرگان دین پرمدح اورنعتیہ کلام پڑھ رہے ہیں ،کیا اس طرح کے اشعار پڑھنا شرعاً جائز ہے؟ تو اس کے جواب میں مولانا احمد رضا خاں ؒ نے پہلے جملے میں ہی اس عمل پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سخت انداز میں حرام اورناجائز کہا ہے ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ بزرگان دین کی مجلس میں قوالی ہوتی تھی ، اعلیٰ حضرت کا یہ فتویٰ ان کیلئے نصیحت ہے۔ اس سے قبل کاس گنج سے تشریف لائے مولاناانعام احمد صاحب نے فرمایا کہ ہمیں دنیا کی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر ہمیں مالک حقیقی کو پہچاننا چاہئے ۔ آج کہنے کو تو ہم گھروں ،دوکانوں، کھیتیوں کو اپنی ملکیت کہتے ہیں لیکن سچ بات تو یہی ہے کہ اس پوری کائنات کو بنانے والا اللہ ہی ہماری تمہاری ہر چیز کا حقیقی مالک ہے۔ جس طرح آسمان سے بارش کا قطرہ پاک ہوتا ہے اور اگر وہ نالی میں گر جائے تو ناپاک اوردریا و نہر میں گر جائے تو پاک کہلاتا ہے اس طرح ہمارا مقررہ رزق بھی اللہ کے پاس سے آتا ہے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے رز ق کو حلا ل یا حرام کس طریقے سے حاصل کرتے ہیں، یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جتنا رزق اللہ نے لکھ دیا ہے اس کو کبھی کوئی چھین کرلے ہی نہیں جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک مومن کا دوسرے مومن پر سلام کرنے حق ہے۔ سلام کے معنی سلامتی کی دعا کرنے کے ہیں،نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب ایک مومن دوسرے مون سے ملے تو سلام کرے ۔آج بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جس کو صحیح طریقے سے سلام کرنا تک نہیں آتا ۔ اگر ہم صحیح طریقے سے سلام نہیں کریں گے تو اس معنیٰ بدل کر بددعاؤں میں تبدیل ہو جائیں گے اور ہم کو بجائے ثواب کے الٹا گناہ ہی ملے گا۔ اس کے بعد مشاعرہ میں تشریف لائے شعراء کرام نے اپنے کلام پیش کر موجود سامعین سے داد وتحسین وصول کیا۔ اس کے علاوہ ندیم نیر،یقین فیض آبادی، اشفاق بہرائچی، عشرت تالگامی، مہتاب بستوی نے بھی نعتیہ کلام پیش کیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شمیم رامپوری نے انجام دئے۔ اس موقع پر حافظ معمور احمد جامعی ،مولانا انیس خاں، مولانا نور الدین احمد قاسمی، مولانا محمد شفیع مظاہری ،مولانا محمد اکرم جامعی، مفتی اسعد الدین قاسمی، مفتی عثمان قاسمی، مفتی اظہار مکرم قاسمی ،مولانا راشد مظاہری ،مولانا عبد اللہ فتح پوری،حافظ شہبازوغیرہ کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں پرجوش نوجوانوں،بچوں اور بزرگوں کے ساتھ سیکڑوں خواتین نے بھی پردے کے اہتمام کے ساتھ شرکت کیا۔ الحاج ہدایت اللہ اختر نعمانی و ڈاکٹر حلیم اللہ خاں نے آئے ہوئے تمام مہمانوں و معاونین ومنتظمین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔