گینڈوں کی آسٹریلیا میں آبادکاری کا منصوبہ

کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ کوئی شخص اپنے پالتو جانور جیسا ہوتا ہے لیکن رے ڈیئر لو کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔وہ ایک ترشے ہوئے بدن کے شخص ہیں جن کے نین نقش سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا جیسے ملکوں میں سورج کی تمازت کا مزہ چکھ رکھا ہے۔جب وہ بات کریں تو آپ بس سنتے جائیں اور اس کی یہی باتیں پالتو جانور سے مشابہت والی کہاوت کی تردید کرتی ہیں۔تاہم ’رائنو رے‘ کی اپنے پسندیدہ جانور گینڈے سے تھوڑی بہت مشابہت ضرور ہے۔67 سالہ رے ڈیئر لو نے کہا: ’مجھے گینڈوں سے بے حد لگاؤ ہے۔ ڈائنوسار سے اگر کوئی جانور مشابہت رکھتا ہے توگینڈا ہی اس کے بہت قریب ہے۔ یہ محیرالعقل جانور ہیں۔‘اب ڈیئر لو وہی طول و طویل سفر گینڈوں کو کرانا چاہتے ہیں جو تین دہائی قبل انھوں نے کیا تھا۔ یعنی وہ گینڈوں کو جنوبی افریقہ سے آسٹریلیا لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔انھوں نے 80 گینڈوں کو غیر قانونی شکاریوں سے بچانے کے لیے جنوبی افریقی ممالک سے طیارے کے ذریعے آسٹریلیا لانے کا پرعزم منصوبہ بنایا ہے اور رواں سال کے اختتام تک وہ 20 گینڈوں کا پہلا قافلہ آسٹریلیا لائیں گے جبکہ باقی گینڈوں کو مرحلہ وار طور پر چار سالوں میں لایا جائے گا۔وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ’بعض لوگ اسے دیوانے کا خواب کہیں گے کہ یہ ایک بے وقوف جنوبی افریقی کا منصوبہ ہے۔ لیکن جہاں تک گینڈوں کا سوال ہے تو ہمیں اس کے بارے میں جلدی ہی سوچنا شروع کردینا انھیں گینڈوں سے بچپن سے ہی لگاؤ ہے۔ ان کی پیدائش اور پرورش جنوبی افریقہ کے شمال مشرقی علاقے میں ہوئی جو موزیمبیق کی سرحد سے قریب ہے۔وہ کہتے ہیں ’کروگر نیشنل پارک ہمارے دروازے پر تھا اس لیے بچپن میں ہماری زیادہ تر چھٹیاں وہیں گزرتی تھیں۔’ہمارے بچپن میں وہاں بہت جنگلی جانور تھے اور ہم جانوروں سے لگاؤ کے ساتھ بڑے ہوئے۔‘ایک اندازے کے مطابق شکاریوں نے گینڈے کے سینگوں کے لیے گذشتہ ایک سال میں 1300 گینڈوں کو ہلاک کر دیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے سینگوں کی قیمت مساوی وزن کے سونے سے زیادہ ہے۔ایک کلو گینڈے کی سینگ کی قیمت 60 ہزار امریکی ڈالر یا اس سے بھی زیادہ ہے اور زیادہ تر سینگ چین یا ویت نام پہنچائے جاتے ہیں کیونکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ طبی فوائد سے مالامال ہوتے ہیں، حالاں کہ اس کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی شکار کو کم کرنے کی بہت کوششیں ہوئی ہیں۔ انھوں نے گینڈوں کو بغیر سینگ کا بنانے کی کوششیں کی ہیں لیکن یہ طریقہ کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ شکاری اسے پھر بھی مار ڈالتے ہیں تاکہ سینگ کے اندر کا حصہ نکال سکیں۔انھوں نے کہا کہ ’گینڈوں کو آسٹریلیا میں تقریباً وہی ماحول اور آب و ہوا فراہم کرانے کی کوشش کی جائے گی جو انھیں جنوبی افریقہ میں میسر تھی۔’انھیں ایسے محفوظ ماحول میں ہونا چاہیے جہاں ان کی نسل کی افزائش ہو سکے۔‘