روزے کے دینی ودنیاوی برکات وفوائد

* رمضان المبارک کی تین امتیازی خصوصیات ہیں روزہ، تراویح اور شب قدر، روزہ کی اہمیت اپنی جگہ اٹل ہے اس کے گوناگوں فوائد ہیں لیکن روزے کا اجتماعی مقصد ہے روح کی پاکیزگی یا دوسرے الفاظ میں روحانی طاقت میں اضافہ کرکے نفسانی خواہشات پر قابو پانا، روزہ کا یہی مقصد اور مفہوم تقریباً ہر مذہب میں ہے اور یہی وجہ ہے روزہ کی اہمیت کو ہر مذہب نے تسلیم کیا ہے چنانچہ یہودی، عیسائی اور ہندوسب ہی روزہ رکھتے ہیں مگر اسلام میں ایک ماہ کے روزے فرض قرار دےئے گئے ہیں۔ اور اسی ماہ کا نام رمضان ہے جو قمری سال کا نواں مہینہ ہے۔
مضیٰ ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں گرمی کی شدت سے پیر جلنا یعنی رمضان میں روزے رکھنے سے مسلمانوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ اس ماہ مقدس کو تین عشروں میں تقسیم کیا گیا جب کہ ہر عشرہ کی خاصیت الگ ہے ، پہلا عشرہ رحمت سے معمور ہے ، دوسرا عشرہ مغفرت سے لبریز ہے، تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات ہے۔ اسی عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر ہے۔
تمام عبادات میں روزہ کی عبادت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہے کہ ’’رمضان میرا مہینہ ہے‘‘ اور روزہ کی عبادت خداوند قدوس کو اتنی محبوب ہے کہ ’’اس کا بدلہ وہی دیگا‘‘ نماز کی عبادت سال بھر ہے، زکوٰۃ کیلئے صاحب نصاب ہونا شرط ہے، حج عمر میں ایک بار فرض ہے وہ بھی دولت مندوں پر لیکن روزہ کا وقفہ جہاں سال بھر ہے وہیں پورے ایک ماہ اس کے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک بھوکے پیاسے رہنا اور ہر طرح کی خواہشات سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ آنکھ زبان، کان اور ہاتھ پیر کا بھی روزہ ہوتا ہے اسی لئے روزہ میں آنکھ سے بری چیز کو دیکھنا منع ہے کان سے غلط بات سننا گناہ ہے اور زبان سے فضول گوئی تک پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو مسلمان پورے اصول وآداب سے روزے کا اہتمام کرتا ہے اور ہر بری شے سے روزے میں پرہیز کرتا ہے تو ایک ماہ میں اس کی زندگی ایک خاص سانچے میں ڈھل جاتی ہے اور یہ زندگی واقعی ایک بہتر زندگی کا نمونہ ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ روزہ کے دوسرے فوائد بھی بے شمار ہیں مثلاً طبی لحاظ سے سال میں ایک ماہ کے روزے انسانی صحت کے لئے نہایت مفید ہیں، اس سے انسان کے ہاضمہ کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے، سال بھر میں معدہ جن خرابیوں سے دوچار ہوجاتا ہے وہ دور ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح روزہ انسان میں برداشت کی قوت پیداکرتا ہے وقت کی پابندی کی عادت ڈالتا ہے اور غوروفکر کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے ۔
روزے کے پیچھے ایک سماجی اور معاشرتی پہلو یہ پنہاں ہے کہ جو لوگ غریبی اور تنگ دستی کی وجہ سے بھوکے پیاسے رہتے ہیں ان کی تکلیف کا احساس عام امیروں کو نہیں ہوپاتا مگر روزہ رکھ کر اس کا کسی نہ کسی حد تک اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لہذا روزہ سے امیروں اور حاکموں کے دل میں غریبوں کے لئے ہمدردی کا احساس جاگتا ہے اور باہمی تعلقات خوشگوار ہوکر سماجی تفریق یا طبقاتی کشمکش کی فضا دور ہوجاتی ہے۔