عیسائی، یہودی اور ہندو بھی رکھتے ہیں روزہ

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں بھی روزے کا تصور موجود تھا

غوث سیوانی،نئی دہلی
روزہ مسلمانوں پر فرض ہے اور دنیا میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رمضان کے روزے رکھتی ہے، دنیا کے دووسرے مذاہب میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے اور غیرمسلموں کا بھی ایک طبقہ روزہ رکھتا ہے۔ حالانکہ ان کے ہاں روزے کے معاملا ت کچھ الگ ہیں اور وہ اپنے طریقے سے روزے رکھتے ہیں۔ ان کے روزے کے ایام بھی مختلف ہیں۔ اسی طرح دنیا کی قدیم تہذیبوں میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے۔ جیسے بابلی تہذیب، مصری تہذیب، یونانی تہذیب اور قدیم ہندوستانی تہذیب۔ اللہ نے قرآن کریم میں جہاں روزے کی فرضیت بیان کی ہے وہاں یہ بھی بتایا ہے کہ پرانی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے۔ ترجمہ یوں ہے:
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فر ض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘(سورہ بقرہ)
مولانا عبد الماجد دریا آبادی اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’روزہ کسی نہ کسی صورت میں تو دنیا کے تقریباًہر مذہب اور ہر قوم میں پا یا جاتا ہے۔‘‘ (تفسیر ماجدی)الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ یہ بات تقریباً تمام مفسرین لکھتے ہیں۔انسائیکلو پیڈیا بر ٹانیکامیں روزہ کو سبھی اقوام سے متعلق بتایا گیا ہے ۔حالانکہ اس میں یہ بھی تحریر ہے کہ روزہ کے اصول اور طریقے گو آب وہوا ، قومیت تہذیب اور گرد وپیش کے حالات کے اختلاف سے بہت کچھ مختلف ہیں ، لیکن اس کا بنیادی تصور ہرجگہ ضرور ملتا ہے۔
فرضیت رمضان سے قبل روزہ
روزہ اسلام میں اہم ترین عبادت ہے اور اپنے خالق ومالک کی رضامندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔روزہ کے بے شمار فوائد ہیں جن کا تعلق انسان کے جسم اور روح دونوں سے ہے بشرطیکہ روزہ صحیح اسپرٹ کے ساتھ رکھا جائے۔اہل اسلام کے لئے روزے کی فرضیت کا حکم اگر چہ ہجرت نبوی کے بعد ہوا مگراس سے قبل بھی دنیا کے دوسرے مذاہب میں روزے کا تصور پایا جاتا تھا۔روزے کا تخیل ہندو مذہب ،یہودیت اور عیسائیت میں پہلے سے ہے۔یہاں تک فرضیت رمضان سے قبل مسلمان بھی یوم عاشورہ کو روزہ رکھا کرتے تھے جیساکہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ نے یہودیوں کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو مسلمانوں کو بھی یہ کہتے ہوئے روزہ رکھنے کاحکم دیا کہ ہم یہودیوں سے زیادہ حضرت موسیٰ کے ماننے والے ہیں ۔بنی اسرائیل کے لئے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا اور آج بھی وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔حالانکہ ان کا روزہ بہت طویل ہوتا ہے ۔یہ سورج ڈوبنے کے بعد سیشروع ہوتا ہے اور لگ بھگ۵ ۲گھنٹے بعد اگلے روز رات کے شروع ہونے پر ختم ہوتا ہے۔ اس روزے کے دوران یہودی کھانے پینے کے ساتھ ساتھ جنسی تعلق سے بھی بچتے ہیں۔وہ اس بیچ چمڑے کے جوتے اورآرام و آسایش کے سازوسامان سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔روزے میں یہودی اپنا بیش تر وقت سینیگاگ میں گزارتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں نیز توریت کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں۔
بنی اسرائیل میں روزہ
اسلام کے اندر دوسرے آسمانی مذاہب کی تائید پائی جاتی ہے اور انبیاء کرام کی تعلیمات کی طرف لوٹنے کی تاکید موجو دہے۔یہی سبب ہے کہ قرآن کریم میں جب روزے کا حکم دیا گیا تو یہ بھی یاد دلایا گیا کہ مسلمان پہلی امت نہیں ہیں جن پر روزے فرض کئے گئے تھے بلکہ سابقہ امتوں پر بھی اس کا لزوم تھا۔ تورات کی بعض روایات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا ۔ یہ روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے سخت بات کہی گئی تھی کہ جو کوئی اس روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے الگ ہو جائے گا ۔توریت کی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پہاڑ پر توریت لینے کے لئے گئے اور چالیس دن مقیم رہے تو روزے کی حالت میں رہے۔یونہی حضرت دانیال علیہ السلام کے بارے میں اسرائیلی روایات میں ملتا ہے کہ انھوں نے تین ہفتے کے روزے رکھے تھے۔بنی اسرائیل کے ہی نبی حضرت الیاس علیہ السلام حوریب پہاڑکو گئے تو انہوں نے چالیس دن روزے رکھے تھے۔انھیں روایات کے سبب آج بھی دیندار یہودی روزے رکھتے ہیں۔
شریعت موسوی میں روزہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں صرف ایک روز ہ فرض تھا اور یہ عاشورہ کا روزہ تھا مگر ابنی اسرائیل کے بیچ انبیاء کی آمد ہوتی رہی اورانھوں نے کئی روزے خود بھی رکھے اور عوام کو بھی ان کی ترغیب دی۔یوم عاشورہ کے روزے کو کفارہ کا روزہ کہا جاتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی روزے ان کے ہاں دیگر انبیاء کی ترغیب سے رکھے جانے لگے جن کی حیثیت سنت کی تھی۔ مثلاً زکریا علیہ السلام نے چوتھے مہینے کا روزہ اور پانچویں کا روزہ اور ساتویں کا روزہ اور دسویں کا روزہ رکھا اور اس کی ترغیب دی۔اس کی فضیلت بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ’’ یہودہ کے گھرانے کے لیے خوشی اور خرمی کا موقع اور شادمانی کی عید ہو گا۔‘‘
کب کب یہودی روزہ رکھتے ہیں؟
اسلام اور مذہب موسوی میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔تورات میں کئی مقامات پر روزوں کا حکم دیا گیاہے مگر یہ نفلی روزے ہیں اس لئے ان کی زیادہ پابندی نہیں کی جاتی ہے۔البتہ یہودیوں کے ہاں مصیبت اور آفات آسمانی کے وقت میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ رکھتے بھی ہیں۔ جب بارشیں نہیں ہوتی ہیں اور قحط سالی پڑتی ہے تو بھی یہودیوں کے ہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔یہودیوں میں اپنے بزرگوں کے یوم وفات پر روزہ رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے یوم انتقال پر یہودی روزہ رکھتے ہیں۔علاوہ ازیں کچھ دوسرے بزرگوں کے یوم وفات پر بھی روزے رکھے جاتے ہیں۔یہودیوں میں بہت سے فرقے پائے جاتے ہیں اور یہ لوگ مختلف
ایام میں روزے رکھتے ہیں نیز تزکیہ نفس اور خیالات کی یکسوئی کے لئے بھی روزے رکھنے کا رواج یہودیوں میں پایا جاتا ہے۔
شریعت عیسوی میں روزہ
یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی روزہ کا تصور پایاجاتا ہے۔ انجیل کی روایات کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھا تھا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے روزے کے بارے میں اپنے حواریوں کو ہدایت بھی فرمائی ہے۔بائبل میں ا س بات کی تاکید بھی ملتی ہے کہ روزہ خوشدلی کے ساتھ رکھا جائے اور چہرہ اداس نہ بنایا جائے اور نہ ہی بھوک وپیاس سے پریشان ہوکر چہرہ بگاڑا جائے۔شریعت عیسوی کے ماننے والوں نے بعد کے دور میں روزے کو خاص اہمیت دی اور نفلی روزے کثرت کے ساتھ رکھے۔ وہ عبادت گزار راہب جو اپنی خانقاہوں میں بیٹھ رہتے تھے اور دنیا سے کنارہ کش ہوجاتے تھے وہ کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عیسائیت کے بعض گروہوں میں روزہ مقصد حیات تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہونے کے بجائے خود مقصد حیات بنا دیا گیا تھا۔ راہبوں اور تارک الدنیا افراد کی اس روش کو اعتدال پر لانے کے لیے بیش تر راہبانہ کتابوں میں راہبوں کو ضرورت سے زیادہ روزے رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔
موجودہ دور میں
عیسائی طبقہ اور روزہ
آج کل عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں روزوں کے تعلق سے الگ الگ نظریات پائے جاتے ہیں۔ پروٹسٹنٹ فرقے میں اب روزے کو انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے اور فرض کی حیثیت سے باقی نہیں رکھا گیا ہے۔عیسائیوں میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے جس میں اب روزے کی سخت رسوم باقی نہیں بچی ہیں مگر تصور روزہ باقی ہے۔کچھ ایساہی حال آرتھو ڈاکس فرقے کا بھی ہے۔رومن کیتھولک عیسائیوں کے بیچ ‘Good Friday’ اور’Ash Wednesday’کے موقعوں پر روزے رکھنے کا رجحان اب بھی پایا جاتا ہے۔
ہندووں میں روزہ کا تصور
ہندوستان ایک قدیم ملک ہے اور یہاں پرانے رسم ورواج جاری ہیں۔ اہل علم کاماننا ہے کہ یہاں بھی انبیاء کی آمد ہوئی ہوگی اور یہاں بھی آسمانی مذاہب یقیناًاترے ہونگے مگر حقائق وقت کی گرد کی دبیز دہوں میں دبے ہوئے ہیں۔کسی کو نہیں معلوم کہ اس خطے میں کن انبیاء کی بعثت ہوئی اور کونسی آسمانی کتابیں نازل ہوئیں۔ بھارت میں پرانے زمانے سے ہی روزے کا تصور پایا جاتا ہے جسے عرف عام میں ’’ورت‘‘ کہا جاتا ہے۔’’ورت‘‘کیوں رکھا جاتا ہے اور اس کے احکام کہاں سے آئے اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں کہاجاسکتا مگر مذہبی اور سماجی روایات چلی آرہی ہیں جن کی پابندی میں یہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔ہندووں میں ہر بکرمی مہینہ کی گیارہ بارہ تاریخوں کو ’’اکادشی‘‘ کا روزہ ہے ۔ اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے ۔ہندو جوگی اور ساھو سنتوں میں بھوکے رہنے کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور وہ تپسیا وگیان ،دھیان کے دوران عموماً کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔حالانکہ ہندووں کے ہاں روزے کی حالت میں پھل،سبزی اور دودھ وپانی وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے ،مگر بعض روزے ایسے بھی ہیں جن میں وہ ان چیزوں کا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔یہاں خواتین اپنے شوہروں کی درازی عمر کے لئے بھی ورت رکھتی ہیں۔حالانکہ جین دھرم میں روزہ کی شرائط سخت ہیں ، ان کے ہاں چالیس چالیس دن تک کا روزہ ہوتا ہے ۔ گجرات کے علاقے میں جینیوں کی بڑی تعداد ہے اور وہ ہر سال کئی کئی ہفتہ کا روزہ رکھتے ہیں۔