……محتسب تم خود اپنے ہو، تقویٰ بہتر پیمانہ ہے

کہتے ہیں وقت کی تندی و روانی انسان سے اسکا سب کچھ چھین سکتی ہے، وہ سب کچھ جو خالق حقیقی نے اسے نوازا ہے، لیکن اہل علم و ادب سے انکے افکار و قلم کی طاقت نہیں چھین سکتی- اہل علم و ادب پر خالق حقیقی کا یہ بڑا کرم ہے کہ وہ انہیں اس سے مستشنی رکھتا ہے، اور ان میں متاخرین و متقدمین کی کوئی قید نہیں، انکی ادبی نیکیوں کو زندگی میں اور اسکے بعد بھی صدقہ جاریہ بنا کر رکھتا ہے، انکی زندگی کی راتیں کشمکش میں گزرتی ہیں کہ کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی.. گو انکے ہاتھ کو جنبش نہیں ہوتی لیکن افکار میں دم خم باقی رہتا ہے اور دنیا بہ مثل ساغر و مینا آنکھوں کے سامنے رہتی ہے…. وہ اپنی تحریر میں کبھی زبان بے نگہ رکھ دیتے ہیں تو کبھی نگاہ بے زباں…. اور یونہی رموز قلندری فاش کرتے جاتے ہیں- عمر گزرتی جاتی ہے اور دنیا کے خد و خال کیا سے کیا ہوجاتے ہیں، اور وہ فقیروں کا بھیس بنا کر تماش اہل کرم دیکھتے رہتے ہیں، یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جس سر کو تاج وری کا غرور ہوتا ہے پھر اسی پہ نوحہ گری کا شور بھی ہوتا ہے- ثقہ اہل علم و ادب کی اکثریت ہمیشہ سے حق کے ساتھ اور باطل کی مخالف رہی ہے، بلکہ انسانوں کو حق بہ جانب رکھنے میں کوشاں رہی ہے، جس کی وجہ سے کائینات میں توازن قائم رہتا ہے- موجودہ دور میں چونکہ ایسے اہل علم و دانش کا فقدان ہے اس لئے دنیا کی اکثریت بہ جانب باطل مائل ہو رہی ہے، مسلمان بھی اپنا کردار ادا کرنے سے غفلت برت ر ہے ہیں-
مسلمانوں میں کچھ تو ایسے بھی ہیں جو حق و باطل کی جنگ میں بے جا تیسرے فریق کا کردار ادا کررہے ہیں، اور اپنے آپ کو حق بجانب بھی سمجھ رہے ہیں- باطل جو انتشار، تفریق اور تعداد کا شیدائی ہے اور اسی میں اسکی عارضی کامیابی اور مسلسل نا کامی کا راز ہے، یہی باطل کا نصب العین بھی ہے- جبکہ حق ہر قسم کی محتاجی اور انحصار سے بے نیاز ہے، وہ نقص سے پاک مستقل اکائی، اتفاق، اتحاد، اتمام و اجمال چاہتا ہے، اور یہی اس کا نصب العین ہے- اب اس جنگ میں کسی تیسرے فریق کی کو ئی گنجائیش نہیں ، بلکہ کوئی منطق ہی نہیں، پھر بھی مسلمان حق و باطل میں ناحق کردار نباہ رہا ہے… باب عشق سے پہلے بھی کچھ باب ہیں…. کچھ عہد و پیماں کے ہیں ، کچھ ایجاب و قبول کے اور کچھ حقوق و فرائض کے بھی….جہاں پیام حق پہنچنے سے رہ گیا ہو وہاں تنبیہ نہیں بھیجی جاتی- عشق و جنگ میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا… دنیا میں ہوتا ہوگا… نظام فطرت میں نہیں ہوتا….. یہاں تو عشق ہو یا جنگ سب کا ایک قرینہ ہے، بلکہ حیات و کائینات کے مکمل ضوابط اور قرائین موجود ہیں …….جب ہم اغیار کے اصول عاشقی اختیار نہیں کرسکتے تو ہمیں اغیار کے اصول جنگ بھی اختیار نہیں کرنا چاہیے ….. مسلمان سمجھتا کہاں ہے…… قلم کی جنگ میں تلوار دراز کر دیتا ہے اور تلوار کی جنگ میں زبان! جہاں رضا شیوہ ہونا چاہیے وہاں شکوہ سنج ہوجاتا ہے، بگڑتا ہے تو ایسے کہ پھر جفا بھی نہیں کرتا، اور نہ ہی حق دشمنی ادا کر پاتا ہے، اور سنورتا ہے تو پھر ایسے کہ خودی کا نشہ نہیں جاتا- جہاں انجان بن کر گزر جانا ہوتا ہے وہاں تماشہ بین بن جاتا ہے، کبھی پرائی آگ میں بے وجہ کود پڑتا ہے اور اسے آتش نمرود سمجھ لیتا ہے…..کبھی بپھرتی لہروں کا مفہوم نہیں جان پاتا اور جان بچائے پھرتا ہے تو کبھی بد رو میں کنکر مار دامن پہ داغ لگا بیٹھتا ہے- حق بجانب بھی نہیں ہوتا اور درمیان سے ہٹنے بھی تیار نہیں کہ فیصلہ ہوجائے- رہے اہل باطل تو وہ انتشار میں مبتلا عارضی اتحاد ڈھونڈ رہے ہیں- اہل حق درخت سے بچھڑے سوکھے پتوں کی طرح اڑے پھررہے ہیں، کبھی انہیں سجدہ گراں محسوس ہوتا ہے اور کبھی انکی جبین نیاز مہر بندگی کو ترستی ہے، کبھی یہ سجد ابلیس کے پس پردہ حقائق سے اعراض برتتے ہیں اور کبھی ہزاروں سجدے لئے تڑپتے ہیں، صبح دم مسجدوں کو خالی رکھتے ہیں اور شب بھر میں مسجد بنانے نکلتے ہیں… خالق حقیقی نے جو کچھ بلکہ بہت کچھ جو دیا ہے اس کا صحیح اور مناسب مصرف نہیں ڈھونڈ پاتے…پاک مال کا استعمال ناپاک کام کے لئے کرتے ہیں اور ناپاک مال سے پاکی خریدنا چاہتے ہیں …..حق و باطل کی جنگ میں روڑے اٹکا رہے ہیں- ورنہ فیصلہ تو بہر حال حق کو ہی کرنا ہے……اور وہ کب کا کر بھی چکا ہے، بس اسکی مشیت میں انتظار کرنا اور کروانا ہے- حق تو تنبیہ دے رہا ہے کہ …. پھر.. انتظار کرو! میں بھی انتظار کرونگا….. یہی تو حقیقت منتظر ہے لیکن اس تنبیہ کو کون سمجھتا ہے –
عاقبت نا اندیشی دیکھیے کہ مذکورہ تنبیہ کو اب ہر کوئی سڑکوں کے کنارے لگائی گئی تنبیہ سمجھ رہاہے جہاں لکھا ہوتا ہے کہ. انتباہ !! یاد رکھو! گھر پر اہل و عیال منتظر ہیں- اکثر نادان اس تنبیہ کا یہ مطلب نکال لیتے ہیں کہ اہل و عیال منتظر ہیں اسی لئے تو تیز رفتاری سے گھر پہنچنا ہے…..اب کیا کیجیے گا لوگوں نے اپنا اپنا نقط نظر خود ہی بنا لیا ہے…خود اپنے اصول وضع کر لئے ہیں جو انکے دل کو بھاتے ہیں- کوئی سڑکوں پر بچھائی گئی سفید پٹی کے اوپر گاڑی دوڑاتا چلا جا رہا ہے جبکہ پٹی کے جانبین کوئی گاڑی بھی نہیں، کوئی من چلا صراط مستقیم پررفتار بے ڈھنگی سے دوڑ رہا ہے اور خط منحنی کے نقوش آنے والوں کے لئے چھوڑ جا رہا ہے…کوئی اغیار کے راستوں پر اپنی گاڑی دوڑا رہا تو کو ئی اغیار کی گاڑی اپنے راستوں پر. اور کوئی تو انواع و اقسام کے ٹرافک اصولوں کے تحت ہر ایک راستوں پر من چا ہی گاڑی دوڑا رہا ہے…..کوئی مغربی موسیقی کی دھن میں اسقدر بالا ہوا ہے کہ اسکی ہمنوائی میں مسلسل ہارن بجا بجا کر سنگت دے رہا ہے، جبکہ دور دور تک راستوں پر کو ئی روڑا نظر نہیں آتا، کوئی جاندار نظر نہیں آتا، نظام قدرت کی پابند ہواں کو ہارن دے دے کر چھیڑنا بری بات ہوتی ہے….. یہ اگر ناراض ہوجائیں تو سمتوں اور راستوں کے رخ بدل کر رکھ دیتی ہیں..اہل مغرب کو اس کا اچھا خاصہ تجربہ ہے- سنا ہے اہل مغرب نے ہارن کی ایجاد سڑکوں پر نکل آنے والے جانوروں کو ہنکارنے کے لئے کی تھی، بلکہ انکے اکثر قوانین انسانوں کو جانور سمجھ کر ہی وضع کیے گیے تھے، سماجی جانور، سیاسی جانور، شہوانی جانور- وہ سب قوانین انکی تہذیب و ثقافت و ذہنیت اور موسم و حالات کے مد نظر کیے گئے تھے اور ان کے لئے شا ید موزوں بھی ہوں – یہ بھی بجا سہی کہ گاڑی کی ایجاد اہل مغرب کی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اسے چلانے کے اصول و ضوابط بھی انکے ہی اپنائے جائیں، حالات سب جگہ یکساں کہاں ہوتے ہیں- لیکن کیا کیجیے گا…..مانگے کی خوشبو لگانا ہو تو دینے والے کا طریق استعمال ہی مناسب دکھائی دیتا ہے…… جب اپنا بنایا ہوا کچھ نہ ہو تو پھر نقالی عادت بن جاتی ہے….اور ایسی عادتیں کمبخت بڑی سخت جان اور بے شرم ہوتی ہیں.. لاکھ دھتکاریے چمٹی رہتی ہیں …. لیکن افسوس ان پر! جن کا اپنا اتنا کچھ ہے بلکہ بہت کچھ ہے …. اور وہ مانگے کی زندگی اور ادھار کی دنیا کے قائل ہو گئے ہیں-
وقت کی بات کیجیے تو وقت کہاں ایک سا رہتا ہے بہ مانند منظر….. وقت انہیں کے لئے خود کو بدلتا ہے جو وقت کو بدلنا چاہتے ہیں……. اہل باطل وقت کو بدلنے میں کچھوے کی چال چل گئے اور اہل حق خواب خرگوش میں مبتلا رہے- قول فاروقی ہے کہ اپنا حساب خود کرلو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جائے….اب دیکھیے اہل حق اس قول کو کیسے کیسے گھماتے ہیں اور کہاں کہاں سے پھراتے ہیں… کتنی باتیں بناتے ہیں… کتنے بہانے بناتے ہیں…… کتنے گلے شکوے کرتے ہیں… اور بالآخر جو کرنا ہے وہ یونہی دھرا رہ جاتا ہے ….. بات دور نکل جا تی ہے ، بلکہ ہاتھ سے نکل جاتی ہے….. یا پھر کچھ یوں منہ سے نکلنے لگتی ہے کہ الزامات کا دور دورہ ہوتا ہے ….. پھر حساب و احتساب کہاں ہوپاتا ہے….
محتسب تم خود اپنے ہو، تقوی بہتر پیمانہ ہے …… ہر احتساب پہ باور کرنا، تم ابھی باایمان بھی ہو۔