بابری معاملے کے مدعی ہاشم انصاری کا انتقال

اجودھیا، 20 جولائی (یو این آئی) بابری مسجد معاملہ میں مدعی محمد ہاشم انصاری کا آج صبح یہاں انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر تقریباً 96 برس تھی۔ انہوں نے علی الصبح پانچ بجے اپنی رہائش گاہ پر آخری سانس لی۔ وہ ایک عرصے سے علیل تھے اور کچھ دنوں پہلے جب ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تھی تو انھیں اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ان کے بیٹے اقبال انصاری نے بتایا کہ ’بدھ کی صبح وہ نماز کے لیے نہیں اٹھے تو گھر والوں نے جا کر دیکھا اور پایا کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔‘ان کی تدفین بعد نماز مغرب اسی تاریخی قبرستان میں کی گئی جس کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قبرستان میں پیغمبر حضرت شیث علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ مدفون ہیں۔دسمبر 1949میں بابری مسجد میں مورتی رکھے جانے کے بعد فیض آباد کی عدالت میں بابری مسجد کی طرف سے مقدمہ دائر کرنے اور قانونی لڑائی لڑنے والے ہاشم انصاری کی آخری خواہش پوری نہیں ہوسکی اور وہ بابری مسجد کی بازیابی کی تمنا لئے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان کے انتقال کی خبر سنتے ہی ان کے گھر پر لوگوں کی بھیڑ لگنے لگی۔ طویل عرصے سے بیمار چل رہے مسٹر انصاری کے انتقال پر اجودھیا کے کئی سنتوں مھنتوں نے بھی تعزیت کا اظہار کیا۔مندر تحریک کے دوران اجودھیا میں کشیدگی کے باوجود وہ لوگوں سے امن کی ہی اپیل کرتے رہتے تھے . انہیں ہندو اور مسلمانوں دونوں میں یکساں احترام حاصل تھا۔ ام مندر تحریک سے منسلک رہے پرم ہنس رام چندر داس کے وہ قریبی دوست تھے ۔ تیرہ سال پہلے پرم ھنس کی موت پر آیا ان کا بیان “میرا دوست مجھ سے پہلے چلا گیا.” آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے . ان کے انتقال پر آل انڈیا اکھاڑہ پریشد کے سابق صدر اور مشہور ھنومان گڑھي کے مہنت گیان داس نے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مندر مسجد تنازعہ کا اتفاق رائے سے حل چاہنے والا شخص چلا گیا. ایک فریق کی پیروی کرنے کے باوجود مسٹر انصاری نے ہمیشہ دونوں فریقوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے رہتے تھے ۔