جمیل مظہری بہت بڑے فنکار اور خلیق انسان تھے : امتیاز کریمی

پٹنہ، 23 جولائی (امتیاز کریم)۔ مایہ ناز شاعر علامہ جمیل مظہری کے 112ویں یوم پیدائش کے موقع پر ان کی یاد میں اردو ڈائرکٹوریٹ کے زیراہتمام شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع سے مقالہ نگاروں اور دیگر مقررین نے علامہ جمیل مظہری کی شخصیت اور ان کے شعری و ادبی خدمات کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی اور عالمی سطح پر ان کے ساتھ برتی گئی عصبیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر ان کا تعلق بہار کے بجائے دہلی یا لکھنؤ سے ہوتا تو انہیں ان کے استحقاق کے اعتبار سے میرؔ ، غالبؔ اور اقبالؔ کی صف کا شاعر تسلیم کیا جاتا۔ تقریب کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر اسلم آزاد نے کہا کہ ایک عظیم المرتبت شاعر، بلند پایہ افسانہ نگار اور بہترین ادیب تھے۔ انہوں نے تمام اصنافِ ادب پر طبع آزمائی کی اور ان میں سرخرو رہے۔ انہوں نے اپنی تخلیقات سے اردو زبان و ادب اور شاعری کی جیسی بیش بہا اور ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں، وہ دبستانِ عظیم آباد کے لئے ایک سرمایۂ افتخار کی حیثیت رکھتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ علامہ جمیل مظہری ایک کثیرالجہات اور ملک گیر شہرت یافتہ شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے علامہ سے اپنے ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے ان کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ ایک بہت بڑے محب وطن بھی تھے۔ جب ملک میں آزادی کی جنگ چھڑی تو انہوں نے اپنے خون سے استعفیٰ نامہ لکھ کر سرکاری ملازت چھوڑ دی۔ بلاشبہ جمیل مظہری پر دبستانِ عظیم آباد کو ناز ہے۔ وہ ایک عبقری اور عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے۔ لیکن مزاج میں بڑی سادگی اور طبیعت میں اخلاق و انسانیت کا جوہر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسی عظیم ادبی شخصیت کے عظمت کے اعتراف میں پٹنہ یونیورستی میں ’’جمیل مظہری چیئر‘‘ قائم کیا جائے۔ اردو مشاورتی کمیٹی کے صدرنشیں شفیع مشہدی نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اپنی تقریر میں کہا کہ علامہ سے ان کے بڑے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ جہاں تک مذہبی معاملہ میں تشکیک کا تعلق ہے، وہ ایک بحث طلب معاملہ ہے۔ لیکن بہرطور علامہ جمیل مظہری ایک ایسی کثیرالجہات اور بلند قامت ادبی شخصیت کا نام ہے جس پر کئی دن کا سمینار کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمیل مظہری اگر بہار سے باہر پیدا ہوتے تو ان کی قدردانی حد سے سوا ہوتی۔ اہلِ بہار کو اپنے لعل و گہر کی قدرکرنی چاہئے۔ اس سے قبل اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی نے معزز مہمانوں اور سامعین حضرات کا استقبال کرتے ہوئے کہاکہ اپنے اسلاف کو یاد کرنا اوران کے کارناموں سے نئی نسل کو متعارف کرنا ایک زندہ اور ممنون قوم کی نشانی ہے۔ ہم یادگاری تقریبات کے ذریعہ جہاں ایک طرف محسنینِ زبان و ادب کو یاد کرکے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، وہیں نئی نسل کو ان سے متعارف کرانے کے ساتھ ان میں اردو زبان و ادب کے تئیں تشویق اور وابستگی بھی پیدا کرناچاہتے ہیں۔ ڈائرکٹر موصوف نے علامہ جمیل مظہری کی حیات و خدمات مختصر مگر جامع روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ ایک عظیم المرتبت شاعر، بلند پایہ افسانہ نگار، شفیق استاد اور نہایت خلیق انسان تھے۔ جمیل مظہری نے تمام اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی اور بہترین ادبی تخلیقات پیش کیں جو دبستانِ عظیم آباد کے لئے سرمایۂ افتخار ہیں۔ انہوں نے اردو دوست سامعین حضرات کا بے حد شکریہ اداکیا اور کہا کہ آپ کی آمد سے اردو ڈائرکٹوریٹ کا ہمت افزائی ہوتی ہے اور ہمیں مزید کچھ بہتر کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اس تقریب کے ذریعہ ہم نئی نسل کی حوصلہ افزائی کرکے اردو زبان و ادب سے ان کا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ڈپٹی ڈائرکٹر (اردو) خورشید عالم انصاری (خورشید اکبر) نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہم علامہ جمیل مظہری جیسی نابغۂ روزگار شخصیت کو یاد کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں، اگرچہ وہ اردو شعر و ادب میں محتاجِ تعارف نہیں، لیکن اب بھی اردو ادب میں ان کا مقام متعین نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمیل مظہری نے تمام اصنافِ ادب پر لکھا۔ وہ ہر صنف کے بہترین شاعر تھے۔ ان کی مثنوی ’’آب و سراب‘‘ اپنے فن، اسلوب اور موضوع کے اعتبار سے ایک اعلیٰ و ارفع شاعری کا نمونہ ہے۔بلاشبہ انہوں نے اردو شعر و ادب کی جیسی ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں، اس کے سبب دبستانِ عظیم آباد کی گونج پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی کے نائب شیخ الجامعہ پروفیسر توقیر عالم نے اردو ڈائرکٹوریٹ کو علامہ جمیل مظہری پر ایسی شاندار منعقد کرانے کے لئے دلی مبارکباد پیش کی اور انہوں نے کہا کہ ۲۰۱۳ء میں نے علامہ جمیل مظہری کے ادبی خدمات کے اعتراف میں بہار یونیورسٹی مظفرپورمیں ایک بین الاقوامی سمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں علامہ موصوف پر بہترین مجلہ بھی شائع کیا تھا۔ اس کے بعد آج ۲۰۱۶ء میں اردو ڈائرکٹوریٹ کے ذریعہ ایسی رفیع القدرشخصیت پر سمینار کرانا لائقِ صد تحسین و مبارکباد ہے۔ انہوں نے طلبا کی شمولیت کی ستائش کی اور کہا کہ اس سے نئی نسل کی آبیاری ہوسکے گی۔ اس موقع پر انہوں نے جمیل مظہری کے شخصی تعارف کے بعد ان کی ناولٹ نگاری پر ایک مبسوط اور جامع مقالہ بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اپنے سمینار میں طلبا و طالبات کی شمولیت کو خوش آئند بتایا۔ انہوں نے اپنے مقالہ ’’جمیل مظہری کی نظموں میں احترامِ آدمیت‘‘ کے توسط سے ان کی نظموں کا بہترین محاکمہ پیش کیا اور کہا کہ جمیل مظہری نے رعنائیِ خیال اور تغزل سے بھرپور نظمیں کہی ہیں۔ سچ تویہ ہے کہ ان کی نظمیں ہی ان کی تفہیم میں زیادہ معاون ہیں۔ جمیل مظہری نے اپنی نظموں میں عظمتِ آدم کے ترانے گائے ہیں۔ ہر چند کہ ان کی نظموں میں اقبالؔ کے لحن اور جوش کی گونج سنائی پڑتی ہے لیکن ان میں جمیل کا اپنا ایک آہنگ بھی ہے۔ انہوں نے کبھی بھی رعنائیِ خیال او ر شعریت و تخلیقیت کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان کی نظموں میں رعنائیت او رموسیقیت ہے لیکن ان میں سطحیت اور سپاٹ پن بالکل نہیں ہے۔ فرد الحسن فرد نے اپنے مقالہ میں جمیل مظہری کو ایک کثیرالجہات شاعر بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ میں اس کشمکش میں ہوں کہ میں اپنی بات کہاں سے شروع کروں۔ اس وسیع ادبی شجرِ سایہ دار کو اگر دیکھا جائے تو اس کی جڑ میں تصوف بڑی گہرائی کے ساتھ پنہاں ہے۔ ان کی تمام تخلیقات ادب کے بہترین اصناف کا نمونہ ہیں لیکن ان کی وہ قدردانی نہیں ہوئی، جس کے وہ مستحق ہیں۔ پروگرام کے دوسرے سیشن میں بہار کے پانچ منتخب شعرائے کرام پر مشتمل بزم سخن کا اہتمام کیا گیا۔ بزم سخن کی صدارت استاد الشعراء جناب قوس صدیقی نے فرمائی۔ بزم سخن میں عالم خورشید، ظہیر انور، شگفتہ سہسرامی اور رضوان حیدر نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ شگفتہ سہسرامی نے اپنے خاص انداز میں کلام پڑھ کر محفل کو لوٹ لیا۔ ان کے اس شعر پر سامعین نے داد تحسین کی بوچھار کردی ’’کسی کی یاد میں سرشار رہنا۔ متاعِ زندگی ہے اور کیا ہے‘‘۔ اس کے بعد شعری دنیا میں اپنی خاص پہچان رکھنے والے شاعر عالم خورشید نے اپنا کلام پیش کیا۔ ان کے اس شعر کو خوب پذیرائی ملی ’’عجیب کمال سے اس نے سجائی ہے دنیا۔ قفس میں رہ کے بھی لگتا ہے ہم قفس میں نہیں‘‘۔اس موقع پر طلباء و طالبات کی جانب سے بہار یونیورسٹی کی ریسرچ خاتون یاسمین خاتون، اورینٹل کالج کے محمد منصف، پٹنہ یونیورسٹی کی طالب علم شاہد وصی، فرحت بانو، اور ڈاکٹر رضوانہ پروین نے علامہ جمیل مظہری پر اپنے اپنے خیالات کا تحریری و زبانی اظہار کرکے سامعین کا دل جیت لیا۔ اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے انہیں انعام اور سند سے نوازا گیا۔ تقریب کے آخر میں ایک مختصر شعری نشست میں کا اہتمام کیا گیا جس میں قوس صدیقی، عالم خورشید، ظہیر انور، شگفتہ سہسرامی اور رضوان حیدر عشروی نے اپنے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ ڈائرکٹریٹ کی جانب سے انہیں شال اور اعزازی رقم سے نوازا گیا۔ اس تقریب میں غلام رسول قریشی نے اپنی مترنم آواز میں جمیل مظہری کی ایک خوبصورت غزل پیش کرکے سامعین کو بے حد محظوظ کیا۔ نظامت کی ذمہ داری محمد نور عالم نے بخوبی انجام دی۔ اس تقریب میں کثیر تعداد میں شہر اور بیرونِ شہر کی معروف اور معزز شخصیتوں نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر ہمایوں اشرف، ڈاکٹر ابوبکر رضوی، ڈاکٹر محبوب عالم، ڈاکٹر سرور حسین، امتیاز کریم، ناشاد اورنگ آبادی، عابد رضا نقوی، محفوظ عالم (ای.ٹی.وی)، ضیاء الدین، منیر سیفی، باری اعظمی، طارق متین، ڈاکڑ شاہد جمیل جمال ندولوی، شفیع بازیدپوری، اثر فریدی، معین گریڈیہوی،ظفر صدیقی، رخسانہ صدیقی، جاوید اختر، انوارالہدیٰ وغیرہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔تقریب کی کامیابی میں ڈاکٹر اسلم جاویداں، مجتبیٰ حسن، پرویز عالم، ڈاکٹر خورشید انور، شفقت جمال، کفیل احمد، مختار احمد، افضل حسین، محمد حامد، محمد جہانگیر انصاری، رام بہادر، محمد حسیب، محمد یحییٰ ،محمد شکیل احمد، علی احمد وغیرہ نے سرگرم کردار نبھایا۔