نوجوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی:محبوبہ مفتی

سری نگر ، 28جولائی (یو ا ین آئی) جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جمعرات کو کہا کہ وادی کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے نوجوانوں کی قربانیوں کو راہیگاں نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں ، فوج اور ریاستی پولیس کو جنوبی کشمیر کے ککر ناگ میں حزب المجاہدین کمانڈر کی موجودگی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ کچھ عناصر وادی میں موسم بہار، سیاحتی سیزن اور کام کاج کا وقت شروع ہوتے ہی حالات بگاڑتے ہیں۔ محترمہ مفتی نے یہاں اپنی پارٹی پی ڈی پی کی ایک تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عناصر بچوں کو جان بوجھ کر جلوس کی صورت میں فوجی کیمپوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اِن بچوں کی قربانیوں کو رائیگان نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ‘ابھی تو بچوں کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن بعد میں اُن کے گھروالوں کی فکر کوئی نہیں کرتا۔ میری کوشش ہوگی کہ بچوں کی قربانی راہیگاں نہ ہو۔ کوئی نہ کوئی ماحول ایسا بننا چاہیے جس میں صلاح ہو ، صفائی ہو۔ جیسا ماحول واجپائی کے وقت میں پیدا ہوا تھا’۔ وزیر اعلیٰ نے الزام عائد کیا کہ کچھ عناصر وادی میں موسم بہار، سیاحتی سیزن اور کام کاج کا وقت شروع ہوتے ہی حالات بگاڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا ‘کشمیر کو گذشتہ تیس برسوں جس دوران یہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی، سرکاری عمارتیں جلائی گئیں، ہڑتالیں کی گئیں اور کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا، کے دوران کچھ حاصل نہیں ہوا اور اُن کے بقول اگر وادی کشمیر کو کچھ حاصل ہوا تو وہ مرحوم مفتی سعید کے دور میں مظفرآباد روڑ کی صورت میں حاصل ہوا ہے ‘۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم مفتی سعید کے دور میں امن عمل کا آغاز کیا گیا تھا جو بدقسمتی سے 2005 سے آگے نہیں بڑھا۔محترمہ مفتی نے الزام عائد کیا کہ کچھ عناصر احتجاجی جلوس کو جان بوجھ کر فوجی کیمپوں کی طرف لے جاتے ہیں اور بعدازاں خود موقعے سے رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ جو بچے مشغلے کے طور پر جلوس کے ساتھ نکلے ہوتے ہیں، وہی بعد ازاں مارے جاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں ، فوج اور ریاستی پولیس کو جنوبی کشمیر کے ککر ناگ میں حزب المجاہدین کمانڈر کی موجودگی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ انہوں نے کہا ‘میں نے پولیس اور آرمی سے بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ انہیں وہاں تین جنگجو وں کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی۔ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ کون کون وہاں ہے ۔ اگر اُن کو معلوم ہوتا شاہد وہ اسے (برہان) کو دوسرا موقعہ دیتے ۔ جب افضل گورو کو پھانسی دی گئی تو عمر عبداللہ کو پہلے سے پتہ تھا۔ اس لئے انہوں نے تمام انتظامات پہلے ہی کردیے تھے ۔ ہمیں تو کچھ بھی معلوم نہیں تھا، ہمیں تو اچانک ہی معلوم ہوا’۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ پیلٹ گن کی جگہ کسی غیر ضرر متبادل کا استعمال ہو۔ انہوں نے کہا ‘سال 2010 میں پیلٹ گن اس لئے لایا گیا تھا کہ لوگوں کی موت نہ ہو۔ لیکن اس سے کافی نقصان پہنچا ہے ۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ پیلٹ گن کے استعمال کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جارہا ہے ۔ ہماری یہ کوشش ہوگی کہ پیلٹ گن کا متبادل ڈھونڈا جائے ‘۔