حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا عظیم کردار

محمد ارشد انجم ڈلوکھر مرزاپور مدھوبنی۔۔۔۔9955221556
561ء میں سر زمین ہندوستان پر کفر والحاد کی گھٹا چھائی، ظلم و تعدی نے سر اٹھایا، گلی گلی، کوچہ کوچہ، دیوی دیوتاؤں کی پوجا ہونے لگی. اور ہندوستان کی زر خیز زمین سرے سے ہی اللہ اور اس کے رسولؐ سے نا آشنا ہو چکی تھی. یہاں کے باشندگان خدا اس کے احکام و قوانین اور اذان و نماز سے نا بلد ہو چکے تھے. قمار بازی، جوا، شراب، جادو ٹونے اور بیوہ عورتوں کو شوہر کی چتا کے ساتھ نزر آتش کر دینا عام دستور ہو گیا تھا اور یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا. گویا ہندوستان کے اس زمانہ کو زمانۂ جاہلیت سے تشبیہ دینا کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے. تو ایسے پر خطر اور پر فتن دور میں رحمت ایزدی نے ضرورت کے مطابق ایک ذات با برکت شخصیت حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو ہندوستان کی جانب رخ کرنے کا اشارۂ غیبی کیا۔
چنانچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی بخارا، سمر قند، ملتان، اور نیشاپور کے علاقوں میں اشاعت تبلیغ دین کرتے ہوئے لاہور حضرت ابوالحسن بجنوریؒ کے مزار شریف پر حاضر ہوئے. اور اپنے احساسات اور تاثرات کا گلدستہ اس شعر کے ساتھ پیش کیا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راپیر کامل کاملاں ر اراہ نما
586ء میں اجمیر کی پوجا پاٹ والی سر زمین پر قدم رنجاں ہوئے تو اذان پکارنے اور مالک حقیقی کی پرستش کرنے اور اسلام کی اشاعت تبلیغ پر پابندی عائد کردی گء. چنانچہ خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور ان کے جان نثار مریدوں کو طرح طرح کے مصائب و آلام سے ہمکنار ہونا پڑا. کبھی وضو کے پانی کے لئے ترسایا گیا کبھی دشنا طراز باتیں کہی گئیں. کبھی مذہب اسلام کا مزاق اڑایا گیا. کبھی جادوگر اور غاصب تخت و تاج کے القاب سے نوازا گیا. یہاں تک کہ دہلی کا راجہ سومیشور اور تومر راجپوت حکمرانوں نے قسم قسم کی اذیتیں دے کر بزرگان چشتیہ کو ہندوستان سے نکال دینے کا پلان بنایا. اور دیگر جتنے حربے ہو سکتے تھے ان بزرگوں کے خلاف استعمال کئے. لیکن ان خدا اور رسول شناس بزرگوں نے تمام تر اختر اپردازیوں بہتان تراشیوں دسیسہ کاریوں کا اپنے قول فعل اور اخلاس حسنہ صفات کمالیہ سے سد باب کیا. اور اپنے مقصدو منشاء میں پوری جدو جہد اور تکبیر مسلسل اور فقر و فاقہ کے ساتھ کامیابی کی امید رجاء کے لئے آہنی دیوار بنے رہے. یہ جرأت و ہمت ان کی اولوالعزمی. عالی ہمتی. اور جرأت ایمانی کا ایسا روشن وتابناک کارنامہ ہے جس کی مثالیں صرف پیشوایان مذاہب اور فاتحین عالم کی تاریخوں میں مل سکتی ہیں. ان کے درد و سوز. توکل و اعتماد ان کے زہد و قربانی اور استقلال و اخلاص سے ہندوستان کے لئے دارالسلام بننے کا فیصلہ کر دیا اور جو سر زمین ہزاروں سال سے یقین و اعتماد اور معرفت سے محروم اور توحید و سنت کی صدا سے نا آشنا تھی. اسے ایک ایسا دن بھی نصیب ہوا کہ وہ اولیاء، علماء ، فصحاء، بلغاء، ادباء اور اہل زباں اور صاحب قلم کی سر زمین اور علوم اسلام کی محافظ و امین بن گئی. اس کی فضائیں اذانوں سے اور دشت و جبل اللہ اکبر کی صداؤں اور اس کے شہر و دیار قال اللہ اعر قال الرسول کے نغموں کی سحر انگیزیوں سے گونج اٹھے. مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے القراء دۃ الراشدہ جلد سوم ص: ۱۱ میں فرماتے ہیں. ترجمہ.. اور لیکن حقیقت میں اس ملک ( ہندوستان ) کو جس شخص نے فتح کیا اور اس کو اسلام کے زیر نگیں کر دیا وہ مرد صالح حضرت شیخ معین الدین چشتی ؒ ہیں. آپ کی وجہ سے ہزاروں مشرکین مشرف بہ اسلام ہوئے. اور آپ کی دعا شہاب الدین غوری کے لئے ہتھیار اور ڈھال ہو گئی. حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے انسانی ذندگی گزارنے کا سلیقہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے. اوّل سمندر جیسی سخاوت. دوم آفتاب جیسی شفقت. سوم زمین جیسی تواضع. یعنی جس طرح سمندر اپنے پانی سے تمام انسانوں چاہے وہ مسلم. ہندو. سکھ.عیسائی ہوں غریب و امیر ہوں سیراب کرتا ہے. اور جس طرح سورج اپنی روشنی کو بلڈنگ. مٹی کے بنے گھروں. اینٹ کے بنے گھروں. اور جھونپڑوں پر منتشر کر دیتا ہے. اور جس طرح زمین اپنی فصلوں سے تمام انسانوں کو مستفید کرتی ہے اور اپنے سینے کو تمام انسانوں کے لئے وقف کر رکھا ہے جو چاہے اسے اپنے قدموں سے روندے اور فائدہ حاصل کرے. اسی طرح انسان کو بھی ہر مذہب و دھرم اور ہر امیر و غریب چھوٹے بڑے بادشاہ فقیر کے ساتھ اخلاق باہمی مساویانہ رویّہ رکھنا چاہئے. حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے انہیں اصولوں نے ہندوستانی بت پرستوں کو غور فکر کرنے پر مجبور کر دیا کہ یہ فقیر جس مذہب کی دعوت دیتا ہے اور جس اللہ کی طرف بلاتا ہے کیا یہ باتیں اسی مذہب اور اسی خدا کا کلام ہے. اور جب ان لوگوں نے جانچ لیا تو کلمہ پڑھ کر حضرت خواجہؒ کے دست حق پرست پر مسلمان ہونے لگے. لیکن ہم جب عصر حاضر کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہماری نظروں کے سامنے گجرات. میرٹھ. ملیانہ. مظفر نگر. اور دیگر فساد زدہ شہروں کی تصویر رقص کرنے لگتی ہے. اور وہاں کے مسلمانوں کا پانی کی طرح بہتا ہوا خون نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے.
کیا وجہ ہے کہ یہی ہندوستانی قوم جو ماضی میں ہمارے سامنے سر تسلیم خم کر دیا کرتا تھا. اور ہمیں اپنا محافظ و امین مانتا تھا. ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ دیکر ہمارے نبی کا کلمہ پڑھ لیا کرتا تھا. صنم خانوں کے بتوں کے بجائے ہمارے ساتھ مسجدوں میں خدائے وحدہ لاشریک کے سامنے دست طلب دراز کیا کرتا تھا. اور پابند احکام شریعت ہو جایا کرتا تھا. وید اور رامائن کے بجائے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا کرتے تھے. اوم نمش شوائے کے بجائے اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتی ہوئی نظر آتی تھی. مگر افسوس صد افسوس کہ آج وہی قوم دہشت گرد. انتہا پسند اور ہماری مساجد و مدارس اور خانقاہوں کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دے رہی ہے. قرآن پاک کا نظر آتش کرکے رامائن اور ویدوں پر ان کے مطالعے کی دعوت دے رہی ہے. اسلام کی تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر ہندوانہ رنگ میں ڈھلنے کی ترغیب کی جارہی ہے. اور ” بھارت ماتا کی جئے ” کہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے. جبکہ ہمارے آباو اجداد کے خون پسینے سے سینچے گئے ہندوستانی مسلمانوں اور قدیم تاریخی عمارتوں کو نیست و نابود کر دینا چاہتی ہے. جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف و اکابر کی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور حضور ؐ کی راہ سے منحرف ہو کر نزاع باہمی کے غار عمیق میں دھنس چکے ہیں. اور جزئیات و فروعیات میں الجھ کر رہ چکے ہیں. چند ٹکوں اور سکوں کے خاطر پوری ملت اسلامیہ کو بلیک میل کر رہے ہیں. اور سورج کی سی شفقت. سمندر کی سی سخاوت. زمین کی سی تواضع کے اہم ترین اسباق کو کتابوں کی زینت بنا کر وہابی. دیوبندی. بریلوی اور دیگر بے شمار فرقوں اور ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے ہیں. اور ایک دوسرے کو بدعتی. مشرکی. کافر جیسے القابات سے علی الاعلان نوازتے ہیں. جس کی وجہ سے ہماری قوت و توانائی بہتر جگہوں میں تقسیم ہو گئی ہے. اس لئے حدیث نبوی ؐ پر عمل وقت کا تقاضا اور بنیادی ضرورت ہے. اور اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہو کر اپنی زندگی کو رسول اللہؐ اور اصحاب رسول ؐ کے کردار کے سانچے میں ڈھال کر عالم انسانیت کے لئے خود مشعل راہ اور اسوۂ زندگی نہ بنائیں تو قومی زندگی کی کامیابی وکامرانی اور نجات ممکن نہیں. اور ہمارا تفوّق و برتری قبول کرنے اور ہماری قیادت تسلیم کرنے پر کبھی تیار نہیں ہو سکتی۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
***