علم کے میدان میں اتحاد کی عملی راہیں

ڈاکٹر محمد منظور عالم
قرآن کریم نے اہل ایمان اور مسلمانوں کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرنے ، اتحاد کے لیے لائحہ عمل بنانے، اتحاد کے لئے راستے تلاش کرنے، اتحاد کے لیے اونچ نیچ اور فخر وغرور خواہ وہ علمی ہو، خاندانی ہو، قبائلی ہو یا کسی بھی طرح کے غرور و تکبر کی طرف لے جاتی ہو، اس کو منع کیا ہے اور ناپسند یدگی سے دیکھا ہے ۔اچھے کام کو پھیلانے، اچھے میلان پیداکرنے، اچھے روابط کو قائم کرنے اور اچھے کام کو اکسانے اور اس اچھے کاموں کے ذریعہ عام انسانوں تک پہونچنے، عام انسانوں کی تکالیف میں شریک ہونے، عام انسانوں کی بھلائی، بنی نوع انسان کو ساتھ لینے اور معاشرے کی جو خرابیاں ہیں ان کو دور کرنے، اس کے لیے بہتر حکمت عملی اختیار کرنے اور برائیوں کو روکنے جس سے معاشرے کا ہر فرد متاثر ہوتا ہے، معاشرے کے اندر خرابی پروان چڑھتی ہے، انسان انسان سے نفرت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، انسانیت کی روح غائب ہونے میں مددگار ہوجانے سے ان تمام چیزوں سے دور رہنے کے لیے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ابھی بھی ’’حلف الفضول‘‘ جیسی چیز قائم ہوتو ہم اس میں شریک ہوسکتے ہیں ،خاص طورسے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لویعنی اللہ کی کتاب قران کریم ہدایت کی کتاب ہے اور بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ رب العالمین نے یہ آخری کتاب رحمت العالمین پر نازل کی۔ رحمت العالمین بشیر بھی اور نذیر بھی ہیں اور قیامت تک سارے انسانوں کے لیے بنی و رسول کی حیثیت سے بنی نوع انسان کو ہدایت دینے، انسانیت کو فروغ دینے، انسانوں کے اندر خیرخواہی کا جذبہ پیداکرنے، اچھے کاموں کو گلے لگاکر تعصب کو مٹانے، انصاف کی فضا قائم کرنے، برابری بحثیت انسان قائم کرنے کی جدوجہد کرنے اور تمام انسانوں کی راہ میں انصاف کو اول درجہ دینے، برابری کو بڑھانے پر زور ڈالا ہے۔ اللہ کی رسی کو پکڑنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ دنیا تغیر پذیر ہے اور جہاں تغیر ہوتا ہے وہاں بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں، بے شمار اختلافات بھی ہوتے ہیں، اناکی شدت بھی پیدا ہوتی ہے، غرور اور تکبر بھی جنم لیتا ہے اور جب یہ ساری چیزیں جنم لیتی ہیں تو انصاف کا قتل ہوتا ہے ۔برابری کادرس کتابوں میں محفوظ ہوجاتا ہے اور عملی طور پر وہ نظر نہیں آتا، انسان انسان کا غلام بننے لگتا ہے اور غلام بنانے کی کوشش بھی شروع ہوجاتی ہے ، دولت سمٹ کر کچھ ہاتھوں میں مرکوز ہوجاتی ہے اور اقتصاد چند لوگوں کے پاس جمع ہوجاتی ہے اور ہر انسان کو زندہ رہنے کے لیے جہاں کپڑے اور مکان وہیں خوراک بھی ضروری ہے جس کے مالک یہ چند لوگ ہوجاتے ہیں۔ یہ انسان کی وہ فطرت ہے کہ اس سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے، فرعون ، ہامان اور قارون جیسا مزاج، دنیا جب تک قائم رہے گی وہ پرورش پاتا رہے گا اور ہمیشہ انسانوں میں برابری، انصاف اور آزادی کی معرکہ آرائی ہوتی رہے گی جو بھی انسانیت کو فروغ دینے والوں، برابری چاہنے والوں، ہر ایک کو انصاف کی جدوجہد میں شریک ہونے والوں اور سب کو برابری کے حق کی لڑائی لڑنے والوں اور چند ہاتھوں میں دولت نہ سمٹے اس کے خلاف معرکہ آرائی کرنے والوں سے معرکہ آرائی ہوتی رہے گی تو اس طرح غلام بنانے اور غلامی سے آزادی کی کشمکش جب تک دنیا باقی ہے ، جاری رہے گی خواہ جمہوری نظام ہو اور جمہوری نظام میں عوام کی پسند سے آئے ہوں وہاں بھی ان ہتھیاروں کو کبھی قومیت کے نام پر کبھی نسلی امتیاز کے نام پر ، کبھی طاقت کے نشے میں، کبھی عوام نے جو اعتماد کیا ہے اس کو گمراہ کرکے اور اچھے اچھے الفاظ کے گورکھ دھندوں میں پھنسا کر جیسا کہ ان دنوں ہورہا ہے، یہ جدوجہد جاری رہے گی۔
اللہ تبارک تعالی نے جہاں یہ حکم دیا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں اختلاف نہ کرو۔ جب کبھی اختلاف پیدا ہوتا اور اس کے اندر شدت پیداہوتی ہے تو وہ ساری چیزیں منفی رول ادا کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں آپس میں جاہلیت اور شیطانی طریقے عود کر مسلمانوں کے اندر داخل ہوجاتا ہے اور داخل ہونے کے بعد ظلم و بربریت ، کشت و خون ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن اور الفاظ کے گورکھ دھندوں میں پھنس کر کبھی اعلیٰ نسل اور ارزال کی بحث میں پھنس کر ہدایت الہیٰ کو چھوڑ دیتے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی، غیبت کرنے، دشمنوں کی سازشوں کو سمجھے بغیر اپنے ہی اندر شکوک و شبہات کی فضا قائم کرنے، ایک دوسرے کی برائیاں کرنے اور ایک دوسرے کی جان و مال، عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے جہاں ایک طرف اللہ کی رسی کو پکڑنے اور آپس میں تفرقہ نہ کرنے کی بات کہی ہے وہاں امت مسلمہ کو خیرامت کا بھی لقب دیا ہے اور لقب دیتے ہی یہ بھی کہا کہ عوام الناس میں اچھا ئی کو فروغ دینے اور برائی کو روکنے کی ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے۔ یہ برائیاں عام طور سے غربت، فقر وفاقہ، جہالت، ایک دوسرے کے خلاف سازش کرنے، ٹوہ میں رہنے اور ایک دوسرے کے نجی معاملے میں الزام عائد کرنے، تہمت لگاکر برائیوں کو پھیلانے میں اپنا زیادہ زور لگاتے ہیں۔ اس بات سے دنیا کے جتنے بھی مفکرین ہیں چاہیں وہ کسی بھی دین دھرم اور مذہب کے ماننے والے ہوں، تسلیم کرتے ہیں کہ تعلیم کامیابی کی کنجی ہے۔ یہ علم ہی ہے جو اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت، حق و باطل کے مزاج کو سمجھنے، گروہی یا اجتماعی تعصب سے نکلنے اور دشمنوں کی گہری سازشوں کو سمجھ کر قدم اٹھانے میں مددگار ہے، اس علم پر قرآن اور نبی کریمﷺ نے بہت زور ڈالا ہے اور خود قرآن کریم نے علم کی اہمیت کو مختلف انداز سے اظہار کرنے کے لیے تقریباً ۸۰۰ مقامات پر اس کو بیان کیا ہے۔ شاید کوئی بھی مسلمان اس سے اختلاف نہیں کر سکتا خواہ کسی ملک اورکسی مسلک سے ہوں، کسی گروہ سے ہوں، کسی بھی رنگ و نسل اور علاقے کے رہنے والے ہوں اس پر سب کو اتفاق ہے کہ علم بلاشبہ کامیابی کی ضمانت دیتا ہے اور ہندوستانی مسلمان اس وقت علم میں تمام اعدادوشمار کی روشنی میں آدی واسیوں سے بھی نیچے کا مقام رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اس اعداد وشمار کی روشنی میں علم ، قرآن و حدیث کی روشنی میں اور تاریخ کی روشنی میں اس پر اتفاق رائے ہونا چاہیے کہ ہم علم حاصل کرنے، علم کو فروغ دینے، علم کی بیداری لانے اور علم کو نہ صرف پروان چڑھانے بلکہ یہ طے کرنا چاہیے کہ آئندہ20/25 سالوں میں کوئی بھی مسلمان بچہ ان پڑھ نہ رہے۔ اس سے اتحاد کی راہیں آسان ہوجائیں۔ علم کے میدان میں یہ اتحاد کیسے قائم کیا جائے اس کے لیے چار نکات بہت اہم ہیں:
۱۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہندوستان میں تعلیم پر کام نہیں ہورہا ہے۔شمال میں کام ہورہا ہے جنوب کے مقابلے کم ہی صحیح، مشرق میں بھی کام ہورہا ہے مغر ب کے مقابلے چاہے کم ہی صحیح۔ ان کے اندر جو بھی کام ہورہا ہے اس میں روابط (Co-ordination)پیدا ہو، کہاں کس معیار سے تعلیم پر کام ہورہا ہے اس سے کیسے استفادہ کیا جائے۔ جہاں مسلمان پسماندہ ہیں اورجہاں معیار اچھا ہے ان کے تجربے سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ جانکاری روابط سے حاصل ہوگی اور اس طریقے سے ایک دوسرے کے مسائل سے واقف بھی ہوں گے۔
۲۔ کیسے آپس میں اشتراک کا جذبہ پیدا کریں۔ شمال اور مشرق جہاں تعلیمی حالات بہت اچھے نہیں ہیں اورذرائع بھی بہت کم ہیں۔جنوب اور مغرب میں مسلمانوں کی حیثیت ان کے مقابلے بہت اچھی نہیں ہے، اور ذرائع بھی بہت کم ہیں۔ جنوب اور مغرب میں مسلمانوں کی حیثیت ان کے مقابلے بہتر ہے، تعاون و اشتراک (Co-operation) کے ذریعہ تعلیمی مہم کو آگے بڑھانے، عملی طور پر نافذ کرنے اور بھائی چارگی کو مضبوط کرنے اور تعلیم کے ذریعہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ دلت اور کمزور طبقات کے اندر ماحول سازگاری میں مددملے گی۔
۳۔ یہ سارے کام اس وقت تک انجام نہیں پاسکتے جب تک تمام معلومات مختلف جگہوں پر جوکام ہورہا ہے جمع نہیں کیا گیا اور اس کے ساتھ سرکاری سطح پر جن اسکیموں کا اعلان ہوتا ہے خواہ وہ تعلیمی میدان کے لیے ہوں یا کسی دیگر کاموں کے لیے ہوں، ان کی معلومات جمع کرکے کام کرنے والے افراد، کام کا جذبہ رکھنے والے افراد کو جب یہ ساری چیزیں مہیا کی جائیں گی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ مثبت سوچ و فکر ، مثبت طریقۂ کار اور مائنڈسیٹ کی تبدیلی ہوگی جس سے وہ سبھی جو ہنر کا ذریعہ بھی ہیں، اعلیٰ تعلیم ، سائنس و ٹکنالوجی میں جانے کا بھی ذریعہ ہے۔ اپنی شناخت کا تحفظ کرنے کا بھی ذریعہ ہے اور اپنے دین کے تحفظ اور اشاعت کا بھی ذریعہ بن سکتا ہے۔
۴۔ جہاں جہالت کی وجہ سے یا غربت کی وجہ سے یا قیادت کے فقدان کی وجہ سے ذات برادری کی لڑائی کی وجہ سے نسلی او ر انا کی کشمکش کی وجہ سے تعلیم کے میدان میں کام نہیں ہورہا ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے وہاں نئے اقدام کرنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے یا پیداہوسکتی ہے۔ تعلیم وہ میدان ہے کہ اوپر کے چاروں نکات مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کرسکتے ہیں جس میں بالخصوص مسلم تعلیم یافتہ نوجوان اگر اسے مشن بنائیں، بزرگوں کے تجربات سے استفعادہ کریں تو مسلمانوں کی کایا پلٹ ہو سکتی ہے۔ اپنے اندر اعتماد بھی پیدا ہوگا، اتفاق بھی نظر آئے گا۔ عملی نمونہ بھی سامنے آئے گا ساتھ کام کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔اسی طرح خواہ اقتصادی میدان ہو یا بے روزگاری ، شناخت ہو یا تحفظ خواہ نسلی امتیاز ہویا انا کا ہو، اوپر کے چاروں نکات بہت ہی اہم اور کلیدی رول اداکرسکتے ہیں جہاں سے ہماری ذہنیت بھی بدل سکتی ہے اور وسعت بھی آسکتی ہے اور ہم ایک دوسرے پر اعتماد کرنا بھی سیکھ جائیں گے۔ جس اتحاد کو ابھی ہم خواب سمجھتے ہیں شرمندۂ تعبیر بھی ہوسکتا ہے۔
آخیری بات یہ کہ ہم جمہوری نظام میں رہتے ہیں اور اس جمہوریت تک پہونچنے میں ہمارے اسلاف کی بے شمار قربانیاں ہیں۔ ۲۰ ہزار علمائے اکرام کو پھانسی کے تختہ دار پر لٹکایا گیا اور لاکھوں مسلمانوں کو دربدر کیا گیا۔ لاکھوں مسلمانوں نے وطن عزیز کو عظیم بنانے کا خواب دیکھا اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دی، کبھی تردد نہیں کیا اور اس کے نتیجہ میں ہمارا ملک آزاد ہوا اور ملک آزاد ہونے کے بعد ہمارے وہ خواب جہاں ہمیں سارے ہندوستان کو ایک جان دو قالب بن کر ملک کو دنیا کے نقشے پر عظیم بنانے کا جذبہ پیدا کیا اور تصور کیا کہ اب غلامی سے آزاد ہو کر ہم اپنے بچوں کا مستقبل سنواریں گے جہاں امتیاز ، تعصب، بھیدبھاؤ سے آزاد ہوں گے اور آنے والی نسلیں ملک کی عظمت کو بڑھانے ، ملک میں رہنے والے سارے شہریوں سے محبت کرنے، احترام کرنے اور ملک کے سارے ہندوستانی اس بناپر نفرت و امتیاز کا شکار نہیں ہوں گے کہ کون کس نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ تقریبا ۷۰ سالوں میں ان خوابوں پر اتنے پتھر پڑچکے ہیں کہ شیشہ اگرچہ مکمل طور سے نہیں ٹوٹا ہے لیکن شکن آلود ضرور ہوچکا ہے۔ اب ایسی صورتحال میں مسلمانوں کو جہاں اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا: فاعبترو یا اولی الابصارپس عبرت حاصل کرو۔ ہمیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس شیشے کی دیوار پر کس سمت سے پتھر آئے ہیں تاکہ جمہوری نظام میں جہاں اپنے حق کو حاصل کرنے کی جدوجہد ضروری ہے وہاں اپنے حق کو پروان چڑھانا بھی ضروری ہے۔ جب کبھی کھلے چھپے انداز سے سازشیں ہورہی ہوں اور ان سازشوں میں مختلف سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہوں۔ مختلف گروہ بھی شامل ہوں تو اولی الابصار کے نقطۂ نگاہ سے اور تقاضائے فراست سے اپنی دانائی و سمجھداری سے ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بغیر اپنا ہدف مکمل کرنا چاہیے اور اس میں ماضی کی دوریاستوں کے الیکشن خاص طور سے بہار اور بنگال میں جو نتیجہ آیا ہے جہاں تعداد بھی بڑھی، ماحول بھی پر سکون رہا اور فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والوں کو ناکامی بھی ملی اور سارے پتے کھول کر مسلمانوں نے پیش نہیں کیا چونکہ ووٹ خفیہ ہوتا ہے اس تصور کو باقی رکھا اور اپنی منزل مقصود تک پہنچے۔
آج کا عام مسلمان خواہ یوپی میں ہو، پنجاب یا دیگر ریاست میں، ماضی سے سبق سیکھنا اور عبرت کی نگاہ سے چیزوں کو سمجھنا ماشاء اللہ پوری مسلم قوم بالعموم اور نوجوان مرد و خواتین جو ۱۸ سال اور اس سے زائد کی عمر رکھتے ہیں ان لوگوں کے اندر قوت ارادی اور قوت فیصلہ بہت اچھے انداز سے آچکا ہے ۔بعض اوقات خاموشی بہترین تدبیر ہے اور جو قومیں مدبر ہوتی ہیں وہ ہر چیز کو کھول کر بیان نہیں کرتی ہیں، جو قوم بیدار ہوتی ہے وہ اشارے کی زبان سمجھتی ہے اور جو قوم غفلت میں ہوتی ہے وہ الزام تراشی کا اہتمام کرتی ہے۔
(یو این این)