امام حسینؑ لاثانی شخصیت

سید ریحان حسن رضوی
قدوہ اہل صفا، محبوب رسول خدا، گلدستہ حدیقۂ علی مرتضیٰ، نور چشم فاطمہ زہرا، اشجع الناس حضرت امام حسین شہید کربلا علیہ السلام کی ذات گرامی ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ہے بلکہ پیغمبر اسلام کے ماسوا عالم انسانیت کی وہ عظیم ترین ہستی ہے جو ایک خاص ہدایت پر مامور ہے۔
جب ختمی مرتبت ﷺ کی تعلیمات کا صدق دل سے مطالعہ کیا جائے یا حضرت امام حسین کی سیرت کو جب ہم تاریخ کے آئنہ میں دیکھیں یا مرسل اعظم کی احادیث میں تلاش کریں تو ہم دونوں ہی میں اسلامی تقدس و زیبائی کا جلوہ پائیں گے اور ایک ایسی عظیم شخصیت صفحہ ہستی پر نظر آئے گی جو ان تمام اعلیٰ عظمتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جو روئے زمین پر ایک ہی انسان میں نہیں ہو سکتیں۔
محمد مصطفی نے امام حسین کو ہر موقع پر مختلف حیثیتوں سے متعارف کرایا ہے۔ آنحضرت فرماتے ہیں من اجہ فقد احبنی و من احبنی فقد احب اللہ تعالی و من ابغضہ فقد ابغضنی و من ابغضنی فقد ابغض اللہ تعالیٰ ترجمہ: جس نے حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی اور جس نے حسین سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی اور جس نے مجھ سے عداوت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے عداوت کی (شرح صفا مفرح 2 ص 87) ۔ کبھی فرمایا حسین منی و انا من الحسین ترجمہ : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں (علامہ ابن حجر مکی صواعق محرقہ ص 114) ۔ اور فرمایا ان الحسین مصباح الہدیٰ و سفینۃ النجاۃ ترجمہ : حسین ہدایت کے چراغ ہیں اور نجات کی کشتی ہیں۔ نیز فرماتے ہیں کہ میں نے معراج کے سفر میں جنت کے دروازہ پر لکھا دیکھا الا الہ الااللہ محمد رسول اللہ علی حبیب اللہ الحسن والحسین صفوۃ اللہ فاطمۃ امۃ اللہ علی مبغضیہم لعنۃ اللہ ترجمہ : خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے محمد خدا کے رسول ہیں علی خدا کے حبیب ہیں حسن و حسین خدا کے منتخب کردہ ہیں فاطمہ خدا کی کنیز ہیں اور ان کے دشمنوں پر خدا کی لعنت ہے ( لسان امیزان ابن حجر 70/5 مطبوعہ حیدر آباد) اور کبھی فرمایا ’ان الحسین باب من ابواب الجنۃ و من عاندہ حرم اللہ علیہ ریح الجنۃ تر‘ ترجمہ : حسین جنت کا ایک باب ہیں اس کے دشمن پر خدا نے جنت کی خوشبو کو حرام قرار دیا ہے ۔
خالق کائنات نے امام حسین کو اوصاف و کمالات حسنہ سے آڑاستہ فرمایا تھا ان کا اعتراف دوستوں کو تو تھا ہی دشمنوں تک نے ان کے فضائل و کمالات کا کلمہ پڑھا ۔ والفضل ماشہد بہ الاعداء
حقیقت تو یہ ہے کہ فضل و کمال وہی ہے جس کے آگے اغیار بھی سر تسلیم خم کرتے نظڑ آئیں۔ یقیناًامام حسین نے اپنے عظیم اخلاق اور اعلیٰ کردار کا کلمہ ارباب ایمان ہی سے نہیں پڑھوایا بلکہ دشمنوں تک سے اپنی عظمت کا لوہا منوالیا۔
اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ اس کائنات ہست و بود میں ہزاروں مذاہب کے عمل پیرا افراد موجود ہیں جن کے پیشوا و رہنما جداجدا ہیں مگر ان ہادی و رہبر کو ان کے ماننے والے ہی قابل تعظیم و تکریم سمجھتے ہیں غیر مذاہب کے لوگوں کی نگاہوں میں وہ مشکوک ہیں لیکن تمام مذاہب کے رہنماؤں میں ایسا کامل رہنما اگر تلاش کیا جائے جو ہر مذہب و ملت کے لئے لائق عظمت و عزت ہو تو ان رہنماؤں میں جلی حروف میں سرکار امام حسین کا نام نامی ملے گا جس کے سامنے یگانے بیگانے دوست و دشمن بھی سر تسلیم خم کئے ہیں اور ان کی عظزت و بزرگی اور فضائل و کمالات کا اعتراف کرتے ہیں مختصر طور پر بلااستثناء مذہب و ملت خالص انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر حضرت امام حسین کی ہی وہ عظیم شخصیت ہے جو سب سے خراج عقیدت وصول کر رہی ہے بقول جوش ملیح آبادی
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
آج بھی وہ غیر مسلم دانشور جو مکتب اہلبیت کے صحیح و صالح لٹریچر کے ذریعے امام حسین کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں وہ امام حسین کی عظمت و رفعت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہتے۔ چنانچہ چند غیر مسلم مورخین و دانشوروں کے خیالات و تاثرات ملاحظہ ہوں۔
مہاتما گاندھی : میں نے کربلا کے ہیرو کی زندگی کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس سے مجھ کو یقین ہو گیا ہے کہ ہندوستان کی اگر نجات ہو سکتی ہے تو ہم کو حسینی اصول پر عمل کرنا چاہئے۔ ’میں نے کربلا کی داستان اس وقت پڑھی جب میں نوجوان تھا اس نے مجھے دم بخود اور مسحور کر دیا‘‘۔
’’امام حسین نے اپنی اولاد نیز پورے خاندان کے لئے پیاس اور موت کی تکالیف کو قبول کر لیا مگر ارباب حکومت کے سامنے سر نہیں جھکایا ، میرا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام کی ترقی اس کے ماننے والوں کی تلوار کی بدولت نہیں ہوئی بلکہ اس کے فقراء کی قربانیوں کی وجہ سے ہوئی ۔
جواہر لال نہرو : ’تاریخ کا ایک سبق آموز واقعہ وہ عظیم جاودانی اثر ہے جو کربلا کے غم انگیز سانحے سے دنیائے اسلام پر مرتب ہوا۔ تعجب خیز یہ امر ہے کہ ان طویل صدیوں میں نفسوں پر یہ عظیم الشان اثر ہے اور لاتعداد افراد کی ہمدردیاں حاصل کرتا رہا ۔ واقعہ کربلا جرأت و استقلال کی ایک زبردست یادگار ہے جو جو اب سے تیرہ سو سال قبل رونما ہوا تھا ۔ میں بھی اپنی جانب سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں‘ ۔ ’کربلا کے عدیم المثال ہیرو اور اس کی قربانی کی یاد جو اس ہیرو نے مفاد انسانی کی خاطر پیش کی جذبہ تفاخر کو بلند کرتی ہے ‘ ۔’انسان حضرت امام حسین کے واقعہ شہادت سے یہ سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ تمام ہندوستان کے باشندے خواہ وہ کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھتے ہوں ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقات قائم کریں‘۔ ’’ہر فرقے ، ہر قوم بلکہ ہر فرد کو استقلال اور اپنی جرأت و ہمت میں اضافے کی کوشش کرنا چاہئے اور اپنے جذبہ ایثار و قربانی کو (واقعہ کربلا) کے ذیل میں عروج و ترقی کی انتہائی منزل پر پہونچانا چاہئے ۔
رادھا کرشنن : امام حسین نے اپنی قربانیوں اور ایثار سے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ دنیا میں حق و صداقت کو زندہ رکھنے کے لئے ہتھیار اور فوجوں کے بجائے جانوں کی قربانی پیش کر کے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے دنیا کے سامنے ایک بے مثال نظیر پیش کی ہے آج ہم اس بہادر جان فدا کرنے والے اور انسانیت کو زندہ کرنے والے عظیم الشان انسان کی یاد مناتے ہوئے اپنے دلوں میں فخر و مباہات کا جذبہ محسوس کرتے ہیں امام حسین نے ہمیں بتا دیا کہ حق و صداقت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے‘‘۔(یو این این )