ریاست کے مسلمانوں کیلئے کئی ترغیبی اعلانات

حیدرآباد۔12 اکتوبر(یواین آئی) تلنگانہ کے وزیراعلی کے چندر شیکھر راؤ نے کہا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کو 70 برس گذر چکے ہیں اور آندھرپردیش ریاست قائم ہوئے تقریباً 60برس ہوچکے ہیں لیکن اس میں تلنگانہ کے علاقہ کے دلت اور مسلمان کیوں پسماندہ ہیں جمہوری نظام اور اس سے وابستہ رہنماوں اور اہلکاروں کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ سابق میں ریاست کے جن حلقوں سے مسلم امیدوار کامیاب ہوتے تھے وہاں سے اب وہ کیوں منتخب نہیں ہورہے ہیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ کے چندر شیکھر راو نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بات بتائی۔ اس موقع پر نائب وزیراعلی محمد محمود علی’ وزیر آئی ٹی و بلدی نظم و نسق کے ٹی راما راؤ’ ٹی آر ایس کے ارکان مقننہ عامر شکیل’ فاروق حسین’ محمد سلیم اور دوسرے موجود تھے ۔ وزیراعلی نے کہا کہ فرقہ پرستوں کے لئے اس ریاست میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ تلنگانہ کو سنہری ریاست میں تبدیل کرنے کے لئے سب مل کر امن و محبت کے ساتھ ترقی کے ایجنڈہ پر گامزن ہوجائیں گے ۔تلنگانہ میں قدیم گنگا جمنی تہذیب کی بحالی کے ساتھ حکومت عوام کے ہر عید وتہوار میں شرکت کرے گی اور تہذیب اور بھائی چارگی کے فروغ میں اہم رول ادا کرے گی۔وزیراعلی نے میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ اس خصوصی ملاقات کے دوران زیادہ تر گنگا جمنی تہذیب کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ پہلی مرتبہ جب وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے تب بیگ صاحب نامی آر ڈی او نے انہیں دعوت افطار منعقد کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ ان کے مشورہ پر انہوں نے افطار کی دعوت کا آغاز کیا بعد میں اس کی اطلاع اس وقت کے متحدہ آندھراپردیش کے وزیراعلی آنجہانی این ٹی راما راؤ کو ہوئی تھی اور انہوں نے اس کی تفصیلات حاصل کرتے ہوئے سرکاری سطح پر ان کے مشورے سے پہلی ریاستی دعوت افطار کا جوبلی ہال میں اہتمام کیا تھا جس میں مجلس کے سابق صدر الحاج سلطان صلاح الدین اویسی ؒ نے بھی شرکت کی تھی۔ وزیراعلی نے بتایا کہ ان کے والد اردو میڈیم کے تعلیم یافتہ تھے اور ان کے گھر میں ہمیشہ ایک جائے نماز ہوا کرتی تھی جو ان کے گھر آنے والے مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لئے رکھی جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ حکومت رمضان’ بقر عید ‘ کرسمس’ دسہرہ’ بتکماں’ جیسے عید و تہوار کے لئے حکومت رقومات منظور کررہی ہے اور اس میں شرکت کررہی ہے تاکہ ملی جلی تہذیب کو فروغ حاصل ہوسکے اور امن و بھائی چارہ کا ماحول تلنگانہ میں بحال ہوسکے ۔ انہوں نے کہا کہ اب تک رمضان المبارک میں ریاست میں 200 مساجد کے پاس افطار و طعام کا انتظام کیا جارہا تھا آئندہ رمضان میں ریاست کے 400مساجد میں افطار و طعام کا اہتمام کیا جائے گا۔ انہوں نے اس ملاقات میں زیادہ تر اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لئے رہائشی اسکولوں کی ترقی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال 71 اسکولس کام کررہے ہیں۔آئندہ تعلیمی سال سے مزید 90 اسکولس قائم کئے جائیں گے ۔ ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے اگر ضرورت ہو تو 500 اسکولس تک قائم کرنے کے لئے حکومت تیار ہے کیونکہ ان اسکولوں میں پہلے سال 14ہزار نشستوں کے لئے 48ہزار عرضیاں موصول ہوئی تھیں۔ مرکزی وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے تلنگانہ میں اقلیتوں کے رہائشی اسکولوں کی تعمیر کے لئے اس سال 100 کروڑ روپے فراہم کئے ہیں’ آئندہ مزید فنڈس حاصل کئے جائیں گے ۔ تعلیمی ترقی کے ساتھ معاشی ترقی پر بھی حکومت توجہ دے گی۔ چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ تلنگانہ ریاست میں 12 فیصد مسلم ریزرویشن کی راہ ہموار کرنے کے لئے ریاستی کابینہ نے اپنی حالیہ میٹنگ میں بی سی کمیشن کے قیام کی منظوری دے دی ہے ۔ سدھیر کمیشن کی حالیہ رپورٹ جس میں عامر اللہ خان اور دیگر ماہرین نے جو اعداد و شمار جمع کئے ہیں وہ بہترین ہیں۔ اس رپورٹ کے علاوہ مزید تفصیلات کے ساتھ بی سی کمیشن اپنی رپورٹ حوالے کرے گا۔ مسلمانوں میں مغل ‘ سید اور پٹھان جیسے طبقات میں غریب اور پسماندہ خاندان ہیں انہیں معاشی طور پر پسماندہ زمرہ کے تحت شامل کرنے کے اقدامات کئے جائیں گے تاکہ ہر غریب مسلمان کو ریزرویشن کے ثمرات حاصل ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ 15 تا 20دن میں ریاست میں تمام کارپوریشنوں کے صدور اور ڈائرکٹرس کا اعلان کیا جائے گا۔ ہر کارپوریشن میں 2 تا 3 مسلمانوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ سابقہ حکومتوں کی جانب سے صرف مسلم اداروں میں اقلیتوں کو نمائندگی دی جاتی تھی لیکن موجودہ حکومت مسلم آبادی کے مطابق ان کی نمائندگی کو یقینی بنائے گی۔ اس طرح سے ریاست بھر میں تقریباً100 مسلمانوں کو کارپوریشنوں اور مختلف اداروں میں عہدے فراہم کئے جائیں گے ۔ فی الحال ٹی آر ایس کے 4 ایم ایل سی ‘ ایک رکن اسمبلی موجود ہیں۔ 2018ء میں راجیہ سبھا کے لئے مسلم نمائندے کو نامزد کیا جائے گا۔ چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ صدر مجلس اسدالدین اویسی رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے نہایت سنگین حالات میں ٹی آر ایس کی مدد کی جبکہ منتخب ٹی آر ایس حکومت کوتلگودیشم اور بی جے پی کے ساز باز کے سبب اقتدار میں آنے سے روکا جارہا تھا ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ایسے میں اسدالدین اویسی نے نہ صرف ہمیں چوکس کیا بلکہ اپنے طور پر ٹی آر ایس حکومت کی حمایت کا اعلان کیا جس کی وجہ سے سازش ناکام ہوگئی۔ انہوں نے مجلس کو تلنگانہ کی پارٹی قرار دیا اور حکمراں دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجلس تلنگانہ کی عزت ہے اور انہیں مجلس پر ناز ہے ۔ مجلس کی اپنی ایک پہچان ہے ۔وہ اپنے طور پر کام کررہی ہے ۔ ہم اپنے طور پر کام کریں گے ۔ سب مل کر ریاست کی ترقی اہم رول ادا کریں گے ۔ مجلس ایک دوست جماعت ہے ‘ ان سے ہمارا کوئی ٹکراو نہیں ہے مسلم طبقہ اور ریاست کی ترقی کے لئے مجلس کے اشتراک سے کام کیا جائے گا۔وزیراعلی نے اس خصوصی ملاقات میں بتایا کہ اس سال اقلیتوں کے لئے 1200کروڑ روپے مختص کئے گئے تو آئندہ مالی سال میں کم از کم 1500 کروڑ روپے مختص کئے جائیں گے ۔وزیراعلی نے چھوٹے اضلاع کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تانا شاہی ختم ہوگی اور بہتر و شفاف حکمرانی میں اضافہ ہوگا۔ چھوٹے اضلاع میں 2 تا 4 لاکھ خاندان ہوں تو ان اضلاع میں رہنے والے شہریوں کے تمام اعداد و شمار متعلقہ کلکٹرس کے پاس آسانی سے دستیاب ہوسکتے ہیں جس کی بنیاد پر ریاست کی ترقی کے لئے موثر اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے سابق اسپیشل چیف سکریٹری حکومت جناب شفیق الزماں کو اقلیتی بہبود کے لئے حکومت کا مشیر مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں اقلیتوں کی اسکیمات پر عمل کے لئے مانیٹرنگ کمیٹیاں ضلعی اساس پر تشکیل دی جائے گی تاکہ اضلاع میں موثر طریقہ سے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کی اسکیمات کے نتائج برآمد ہوسکیں۔ان مانیٹرنگ کمیٹیوں کو با اختیار بنایا جائے گا تاکہ یہ کمیٹیاں افسروں اور مختلف شعبوں کے ساتھ اشتراک و تعاون کرتے ہوئے نہ صرف باز پرس کرسکیں بلکہ ترقی میں اہم رول ادا کرسکیں۔ چندرشیکھر راؤ نے اقلیتوں سے اپیل کی کہ وہ مایوسی چھوڑدیں۔ موجودہ حکومت ہر شعبہ حیات میں ان کی شراکت کو یقینی بنائے گی۔انہوں نے کہا کہ پارٹی کے رکن کونسل فاروق حسین سابق میں اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کے صدر نشین رہے ہیں۔ ان کے مطابق کارپوریشن سے کسی مسلمان کو صحیح معنوں میں معاشی ترقی نہیں ہوئی اس لئے حکومت چاہتی ہے کہ قرضہ جات کی اجرائی کے ذریعہ پسماندہ اقلیتوں کو ایسے قرض دئیے جائیں جس کے ذریعہ ان کی معاشی ترقی ہو اور وہ قرض ایسے ہوں گے کہ اقلیتوں کو بینکوں کے چکر لگانے پر مجبور ہونے کے بجائے ان قرضوں کے لئے 90 فیصد حکومت کی جانب سے ادائیگی اور 10 فیصد کارپوریشن کی سبسیڈی کی اجرائی کی جائے گی۔ اقلیتوں کے لئے سیلف فینانس اسکیم پر توجہ دی جائے گی۔ انہوں نے آج پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ شہر حیدرآباد کے ملک پیٹ میں واقع ریس کورس کی اراضی حکومت بہت جلد حاصل کرلے گی تاکہ اس اراضی پر تعلیمی ادارہ قائم ہوسکیں۔ پرانا شہر میں بھی اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لئے مزید ادارے قائم کئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت آئندہ 8 برسوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ریاست کی ترقی کے اقدامات کررہی ہے ۔چندرشیکھر راو نے کہا کہ چونکہ وہ اقلیتی بہبود کا قلمدان خود رکھتے ہیں اس لئے اقلیتوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دے رہے ہیں۔ اب تک وہ نظم و نسق و حکمرانی پر توجہ دے رہے تھے اب وہ فلاح و بہبود پر توجہ دیں گے ۔ انہوں نے منتخبہ نمائندوں اور افسروں کو مشورہ دیا کہ وہ ریاست بالخصوص اقلیتوں کی ہر شعبہ حیات میں ترقی کے لئے ایکشن پلان تیار کریں۔ وزیراعلی نے کہا کہ وقف جائیدادوں کے ریکارڈس کو مضبوط کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر کہا کہ منشائے وقف کے مطابق وقف جائیدادوں کی تفصیلات جمع کی جائیں گی۔ تعلیم’ صحت ‘ درگاہوں اور خانقاہوں کی خدمت کے منشا کے مطابق ان وقف جائیدادوں کی فہرست تیار کرتے ہوئے ان کی آمدنی کو متعلقہ زمروں میں خرچ کرنے کا منصوبہ تیار کیا جائے گا۔ وزیراعلی نے ریاست میں صحت کے شعبہ کو مستحکم کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی اور مسلم آبادی والے علاقوں میں پرائمری ہیلت سنٹرس اور ان میں فراہم کی جانے والی سہولتوں کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ سابق میں اقلیتوں کی ترقی کے لئے برائے نام بجٹ دیا جاتا تھا اور فی الحال بجٹ کا بھی تقریباً نصف استعمال ہورہا ہے ۔ اس لئے بجٹ کے استعمال کے اقدامات بھی کئے جائیں گے ۔ مسلم کسانوں کو بھی ٹریکٹرس فراہم کرنے کے علاوہ زرعی شعبہ میں ان کی ترقی کے اقدامات کئے جائیں گے ۔