طلاق ثلاثہ و تعدد ازدواج کے خلاف حکومت کا اقدام ، یکساں سول کوڈ کی جانب پہلا قدم : مولانا جلال الدین عمری

Press Release: Updated on 10 Oct 2016, 4:06 PM IST

پرسنل لا میں کسی طرح کی بھی مداخلت ناقابل قبول:مولانا عمری

نئی دہلی ،10اکتوبر۔

ملک کے دستور نے ہر شہری کو اپنے اختیار کردہ مذہب اور عقیدے پر عمل کرنے، اس کی نشر و اشاعت کرنے، اس کے لئے ادارے قائم کرنے اور اس کی تعلیم کو عام کرنے کا پورا حق دیا ہے۔مذہب کی آزادی شٰخصی آزادی کے ذیل میں آتی ہے، آئین میں اس کی ضمانت دی گئی ہے اور اسے فرد کے بنیادی حق سے جوڑا گیا ہے۔ان خیالات کا اظہار امیرجماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے آج یہاں ایک مجلس میں کیا۔
مولانا عمری نے کہا کہ طلاق، تعدد ازواج اور دیگر شرعی امور خالص اسلامی احکام ہیں ۔ مسلمان اپنے دینی معاملات میں شریعت پر عمل کرنے کے پابند ہیں ان پر کسی بھی طرح دوسری قوانین مسلط نہیں کئے جا سکتے۔انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لا کے دائرے میں آنے والے قوانین خالص مذہبی قوانین ہیں۔ حکومت کوان کا احترام کرنا چاہئے نہ کہ انہیں ختم کرنے کی سازش کرنی چاہئے۔انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ حکومت مسلمانوں کودیگر اقوام کا طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی بلکہ اسے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ ہر مذہب اور عقیدے والوں پر کسی طرح کا جبر تو نہیں کیا جا رہا ہے اور انہیں مکمل آزادی حاصل ہو رہی ہے یا نہیں، لیکن اس کے برعکس حکومت اس کوشش میں مصروف ہے کہملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کردیا جائے۔ امیرجماعت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو افراد طلاق ثلاثہ یا دیگر امور پر اختلاف کر رہے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ وہ ملک کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں ،بلکہ 99فیصد مسلمان شریعت پر عمل کرنے اور مسلم پرسنل لا کے تحت اپنے معاملات حل کرنے کے خواہاں ہیں ۔ اس کے لئے ملک کے مختلف حصوں سے آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو فرد کے عقیدے اور مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی موت کے بعدا نہیں دفن کرنے کی بجائے آگ کے حوالے کیا جائے اسی طرح ہندو، سکھ ،عیسائی و دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا حال ہے۔ حکومت مختلف مذاہب کو ماننے والوں پر یکساں قانون کا اطلاق نہیں کر سکتی۔یہ ان کی پرسنل لا میں راست مداخلت ہے جسے وہ کسی بھی طور پر قبول نہیں کریں گے۔

موقر عالم دین مولانا عمری نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند اس اہم معاملے میں پوری طرح مسلم پرسنل لا بورڈ کی حمایت کرتی ہے،وہ اس کے ساتھ ہر جگہ کھڑی ہے اور اس کے َعلمَ کوذرابھیجھکنے نہیں دے گی۔مسلم پرسنل لاءہی ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن و حدیث اور شریعت میں کسی بھی طرح کی تبدیلی تاقیامت ممکن نہیں۔کسی بھی حیلے بہانے سے اس میں ترمیم کی گنجائش نہیں۔اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اس نے زندگی کا کوئی بھی گوشہ خالی نہیں چھوڑا ہے اوروہہر طرح کے نقائص سے پاک ہے۔انہوں نے زور دے کرکہا کہ طلاق ثلاثہ، تعدد ازدواج ودیگر شعائر اسلامی کے معاملے میں تمام مسلم جماعتیں متحد ہیں ، ان میں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے ۔ جولوگ ان میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں انہیں ہرگز کامیابی نہیں ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلاق ثلاثہ کے معاملے کو بہتر طریقے سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کو الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور تعدد ازدواج کا معاملہ چھیڑ کر مسلمانوں کی شبیہبگاڑی جا رہی ہے اور یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ مسلمان خواتین پر ظلم و جبر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک سے زائد شادیوں کا چلن مسلمانوں میں نہ کے برابر ہے، بلکہ شاذ ہے۔اسکا حکم نہیں دیا گیا ہے،بلکہ اس کی اجازت ضرورت کے تحت ہے اور اسے بھی اسلام نے مشروط رکھا ہے۔چند خواتین کو اس کے خلاف ابھار کر حکومت کچھ حاصل نہیں کر پائے گی۔شرعی قوانین میں مسلمان سیسہ پلائی دیوار کی طرح ہیں۔ ان کی صف میں شگاف ڈالنے والوں کو کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔سماجی اصلاحات(سوشل ریفارم)کے نام پر یکساں سول کوڈ کے نفاذکی کوشش سے ملک میں انتشار برپا ہوجائے گا،جو ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ چارشادیوں کے معاملے میں بھی عام لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ دیگرمسلم ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں یہ برائے نام ہے۔
امیر جماعت نے طلاق ثلاثہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امت کے بیشتر علماءو فقہاءایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی تسلیم کرتے ہیں اگر مرد یہ کہے کہ اس نے تین طلاق دی ہے۔ لیکن اگروہ یہ کہے کہ اس کی منشا ایک ہی طلاق دینے کی تھی تو اسے ایک طلاق پر ہی محمول کر لیا جائے گا۔ انہوں نے ایک مجلس میںتین طلاق کو غیر اسلامی طریقہ بتایا۔ اسلام نے طلاق کا جو طریقہ بتایاہے اس کے مطابق طلاق تین طہر(تین ماہ) میں ایک ایک کرکے دی جانی چاہئے او اس دوران شوہر جب چاہے رجوع کر سکتا ہے۔عدت کے دوران رجوع کرنے کا اسے پورا حق حاصل ہے۔انہوں نے دوسری اور اہم بات یہ بتائی کہ اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے ۔ اگر وہ اپنے شوہر سے خوش نہیں ہے تو وہ مطالبہ کرے گی کہ وہ اپنا مہر واپس لے لے اور اسے آزاد کردے ۔اگر مرد اس پر راضی نہ ہو تو وہ دارالقضا کا رخ کر سکتی ہے اور قاضی خلع لینے میں اس کی مدد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ بات ہے جس سے عام (مردوخواتین) ناواقف ہیں۔

مولانا موصوف نے اس بات پر زور دیاکہ یہ امور خالص دینی ہیں ۔یہ ہمارے ذاتی،عائلی اور اندرونی مسائل ہیں۔ ان سے حکومت کو کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہئے۔ ہم اپنے مسائل خود حل کرنے پر قادر ہیں۔ ان میں کسی کی بھی مداخلت ہر حالت میں ناقابل قبول ہے۔