ہیپاٹائٹس سی کی نئی دواؤں سے تیسری دنیا کے 10 لاکھ لوگ شفایاب

Taasir Urdu Health News Bulletin | Updated 30 Oct 2016

جنیوا: 

عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ہیپاٹائٹس ’سی‘ کی نئی دواؤں سے اب تک پسماندہ اور غریب ممالک میں دس لاکھ سے زیادہ مریضوں کا کامیاب علاج کیا جاچکا ہے۔

2013 میں مریضوں پر استعمال کےلئے منظور کی جانے والی یہ دوائیں براہِ راست ہیپاٹائٹس سی وائرس کو نشانہ بناتی ہیں اور جگر کو متاثر کرنے والی اس خطرناک اور جان لیوا بیماری کا خاتمہ کرتی ہیں۔

ان دواؤں سے ہیپاٹائٹس ’سی‘ کے 95 فیصد سے بھی زیادہ مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں جو اِن کا سب سے مثبت پہلو ہے جبکہ ہیپاٹائٹس کی دوسری دواؤں کے برعکس ان کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) بھی بہت کم ہیں۔ مگر یہ دوائیں بہت مہنگی بھی ہیں جس کی وجہ سے یہ خدشہ تھا کہ غریب اور کم تر وسائل رکھنے والے ترقی پذیر ممالک ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے؛ حالانکہ دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس ’سی‘ کے 8 کروڑ سے زیادہ مریضوں کی بڑی تعداد ان ہی غریب اور ترقی پذیر ممالک میں رہتی ہے۔

یہی بات مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے 2014 میں ایک بین الاقوامی منصوبہ شروع کیا گیا جس کے تحت لائسنس اور فروخت کی مختلف تدابیر اختیار کرتے ہوئے غریب ممالک میں ان دواؤں کی کم قیمت پر فراہمی ممکن بنائی گئی تاکہ وہاں رہنے والے لوگ بھی اس نئے علاج سے مستفید ہوسکیں۔

اس وسیع البنیاد پروگرام میں اوسط اور کم آمدنی والے کئی ممالک شریک کئے گئے جن میں ارجنٹینا، برازیل، مصر، جیورجیا، انڈونیشیا، مراکش، نائجیریا، پاکستان، فلپائن، رومانیہ، روانڈا، تھائی لینڈ اور یوکرائن شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے اپنے تازہ اعلان میں اس منصوبے سے اب تک حاصل کی گئی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہیپاٹائٹس کی مذکورہ نئی دواؤں سے علاج کی ابتدائی لاگت 85000 ڈالر فی کس تھی جسے اس منصوبے کی مدد سے کم کرکے 1000 ڈالر فی کس سے بھی کم کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مصر کی کارکردگی سب سے اچھی رہی جہاں اس وقت نئی دواؤں سے ہیپاٹائٹس ’سی‘ کے مکمل سہ ماہی علاج کی لاگت 200 ڈالر فی کس رہ گئی ہے۔

ان کامیابیوں کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے اعتراف بھی کیا ہے کہ یہ دوائیں اب بھی ہیپاٹائٹس ’سی‘ کے 80 فیصد سے زائد مریضوں کی پہنچ سے دُور ہیں؛ جس کےلئے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بیماری آج بھی ہر سال تقریباً 7 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے جبکہ زندہ بچ جانے والوں کو مالی طور پر شدید ترین دباؤ میں لے آتی ہے