اردو یونیورسٹی میں طلبہ کے ثقافتی پروگرام ”رنگ ترنگ“ کا کامیاب انعقاد

حیدرآباد9 نومبر (پریس نوٹ) : مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد میں جاری یومِ آزاد تقاریب 2016کے حصے کے طور پر کل شام طلبا و طالبات کے لیے ایک شاندار رنگا رنگ ثقافتی پروگرام ”رنگ ترنگ“ کا اوپن ایئر تھیئٹر میں انعقاد عمل میں آیا۔ شعبوںکے طلبہ نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اور ان کی اہلیہ کی شروع سے آخر تک موجودگی فنکار طلبہ کے لیے زبردست حوصلہ افزائی کا باعث رہی۔ ان کے علاوہ رجسٹرار ڈاکٹر شکیل احمد، فنانس آفیسر پروفیسر رحمت اللہ اور ڈین اسٹوڈینٹس ویلفیئر پروفیسر مشتاق پٹیل، پروکٹر پروفیسرعبدالعظیم،کنٹرولر امتحانات پروفیسر محمد شاہد‘ صدر نشین آزاد تقاریب انیس احسن اعظمی، اساتذہ ، انتظامیہ کے ارکان اور بڑی تعداد میں طلبہ نے اس رنگا رنگ پروگرام سے لطف اٹھایا۔ پروگرام کا آغاز خالد اور ساتھیوں اور ارشاد احمد کی حمد سے ہوا۔ اس کے بعد محمد شاہد، نبیل احمد اور فیاض نے نعت شریف اور وِشنو پریا نے Devotional Song پیش کیا اور فضا کو روح پرور بنا دیا۔ باقاعدہ پروگرام کی شروعات طلبا و طالبات کی ٹیم کے ذریعہ ”مانو ترانہ“ سے ہوئی۔ اس کے بعد فضل فردوس نے بانسری پر ایک گیت پیش کیا جسے زبردست داد و تحسین ملی۔ محمد عامر نے اپنی خوبصورت آواز میں ”یار بدل نا جانا“گیت پیش کیا۔ پھر ایک مزاحیہ ڈراما ”میر کلّو کی گواہی“ محمد مدثر اور سہیل احمد کی ٹیم نے پیش کیا۔ بعد ازاںدو خوبصورت نغمے ”اے دل ہے مشکل“ اور ”جگ گھمیا“ نعیم الدین اور محمد سلطان نے پیش کیے۔ اس کے بعد ایک مزاحیہ ڈراما ”استاد اور انوکھے شاگرد“ پیش کیا گیا ۔ جس میں ایک قابل استاد اپنے انوکھے شاگردوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔ اسے بھی بے حد پسند کیا گیا۔ شائقین کی نبض کو بھانپتے ہوئے ایک اور خوبصورت نغمہ ”چاند تارے پھول شبنم“ نوشادنے پیش کیا ۔ اب ابنِ صفی کے مشہور ناول ”مِرّیخ پر حماقت“ کے چند مناظر پر مبنی ایک ڈراما صدام، ثاقب اور ایشار نے پیش کیا۔ اس کے بعد ایک فلمی نغمہ ”پکارتا چلا ہوں میں“ ثاقب نے پیش کیا اورحاضرین کو مسحور کر دیا۔
حالاتِ حاضرہ پر ایک بے حد شاندار ڈراما ”بابا مجھے جینے دو“ پیش کیا گیا جس میں’ بیٹی بچاﺅ ‘ کا نعرہ دیا گیا۔ اس کے بعد رخسار نے اپنی مترنم آواز میں ”یہ گلیاں یہ چوبارہ“ نغمہ پیش کیا۔ ہم لوگ سرحد پر قربانی دینے والے اپنے سپاہیوں کی قربانیوں کو اکثر یاد نہیں رکھتے ، یہی احساس دلانے کے لیے رمیز نے اپنی جذباتی پیش کش ”فوجی کی قربانی“ پیش کیا اور حاضرین کو جھنجھورر کر رکھ دیا۔ سرفراز نے عطا اللہ خاں کی مشہور غزل ”دل توڑ کے ہنستے ہو میرا“ اور سُبھاشری لنکا نے ”عجیب داستان ہے یہ“ نغمہ پیش کرکے سماں باندھ دیا۔اس پروگرام میں ایک اور حساس ڈراما ”پانی رے پانی تیرا رنگ کیسا؟“ مدیحہ اور ان کے ساتھیوں نے پیش کیا۔ جس میں انہوں پانی کے رنگوں کے ذریعہ بدرنگ ہوتی ہوئی سیاست کو بے نقاب کیا اور عوامی رشتوں کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ اس کے بعد عدنان نے فلم د ل والے کے ایک مشہور گیت ”جنم جنم“ کو پیش کیا جسے حاضرین نے پسند کیا۔ عطا الرحمٰن نے ”ماں“ کے زیرعنوان ایک مو نو ڈراما پیش کیا اور پھر احمد علی نے ایک مشہور نغمہ ”دم درا دم“ پیش کیا اور زبردست داد حاصل کی۔ اس کے بعد مدثر اور ساتھیوں نے ”آزادی“ عنوان سے ایک Mimeپیش کیا، جس نے فضا کو حب الوطنی کے رنگ سے معمورکر دیا۔ پھر ایک خاموش ڈراما ”We are Indian & We are equal“ پیش کیا گیا اور اس پروگرام کے آخر میں عدنان اور ان کے ساتھیوں نے مشہور زمانہ قوالی ”دما دم مست قلندر“ پیش کیا۔ ”رنگ ترنگ“کی نظامت کے فرائض مشترکہ طور پر یونیورسٹی کے طلبا و طلابات دانش، ریاض ، صبیحہ، امن، شمعون اور مدیحہ نے بحسن و خوبی انجام دیے۔”رنگ ترنگ“ کے اختتام پر وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تمام شرکاکے مظاہرہ پر ان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اب یونیورسٹی میں ثقافتی ماحول بن گیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ہمارے طلبا و طالبات نے بے حد جوش و خروش کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ خوش آئند ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں یہ معیار نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ روز افزوں بلندی کی جانب گامزن ہوگا ۔ ”رنگ ترنگ“ ٹیم کے تمام ارکان ڈاکٹر کرن سنگھ اتوال، جناب پٹھان محمد وسیم، ڈاکٹر شبانہ کیسر، ڈاکٹر ثمینہ بسو، ڈاکٹر فرحت علی، جناب محمد مجاہدعلی، ڈاکٹر ارشاد احمد اور ڈاکٹر ظفر گلزار کی محنت کا یہ ثمرہ ان سبھی کی موجودگی میں پایہ¿ تکمیل کو پہنچا۔ ”رنگ ترنگ“ کے کنوینر ڈاکٹر کرن سنگھ اتوال نے تمام مہمانوں اور شرکا کا شکریہ ادا کیا اور آخر میں قومی ترانہ کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔