’قاتلوں کا قاتل‘ سانپ درد سے نجات کا ذریعہ

*۔ شبنم خاتون
سائنسدانوں کے مطابق دنیا کے سب سے زہریلے سانپ کے غدود میں درد سے نجات کا راز پنہاں ہو سکتا ہے۔ قاتلوں کا قاتل کہلائے جانے والے اس نیلے سانپ کے متعلق مشہور ہے کہ یہ ‘کنگ کوبرا’ جیسے سانپوں کا شکار کرتا ہے۔جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے اس سانپ کا زہر فوری طور پر اثر کرتا ہے اور اپنے شکار کو لاچار کر دیتا ہے۔جریدے ٹاکسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اس کا زہر ‘ریسیپٹرز’ کو نشانہ بناتا ہے جو انسانوں میں درد کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور انھیں درد کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔یونیورسٹی آف کوینزلینڈ کے ڈاکٹر برائن فرائی کہتے ہیں کہ ‘زیادہ تر سانپوں کا زہر آہستہ آپستہ اثر کرتا اور زبردست نشہ آور دوا کی طرح ہوتا ہے۔ آپ پر موت سے پہلے سستی طاری ہو جاتی ہے اور نیند آتی ہے۔’تاہم اس سانپ کا زہر بہت تیزی سے اثر کرتا ہے کیونکہ یہ عام طور پر ان جانوروں کا شکار کرتا ہے جو بہت خطرناک ہوتے ہیں اور انھیں ان کے ردِعمل سے پہلے قتل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ قاتلوں کا قاتل ہے۔’’قاتلوں کا قاتل‘ سانپ درد سے نجات دلا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فرائی کہتے ہیں کہ ‘کون سنیلز یعنی گھونگے اور بچھو ہی بغیر ریڑھ کی ہڈی کے ایسے جانور ہیں جن کے زہر پر طبی حوالے سے تحقیق ہوئی ہے۔ تاہم ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں میں سانپ ارتقائی حوالے سے انسانوں کے بہت قریب ہے اور امکان ہے کہ اس کے زہر سے بنائی جانے والی دوا میں زیادہ اثر ہو۔”زہر سوڈیم چینلز کو نشانہ بناتا ہے جو کہ درد کی ترسیل میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم ممکنہ طور پر انھیں درد سے نجات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو کہ ہم پر بہتر طریقے سے کام کر سکتا ہے۔’اس سانپ کے زہر والے غدود اس کی جسامت کا ایک چوتھائی ہیں۔ڈاکٹر فرائی کے مطابق ‘اس کے زہر والے غدود بڑے عجیب ہیں جو دنیا میں سب سے لمبے ہیں، لیکن یہ بہت خوبصورت ہے۔ یہ سانپوں میں میری پسندیدہ قسم ہے۔’ان کے مطابق یہ دنیا کا ریڑہ کی ہڈی والا پہلا جانور ہے جس کا زہر اس طرح اثر کرتا ہے۔لیکن یہ سانپ نایاب ہے اس کی رہنے کی جگہیں تقریباً 80 فیصد تباہ ہو چکی ہے۔ڈاکٹر فرائی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بہت نایاب سانپ ہے۔ ‘میں نے جنگلوں میں صرف دو ایسے سانپ دیکھے ہیں۔”جنوب مشرقی ایشیا میں ان کے زیادہ تر مسکن کھجور کے پودے لگانے کے لیے صاف کیے گئے ہیں۔ کس کو پتا ہے کہ ان جنگلوں میں اور کیا ایسی چیزیں ہیں جو ممکنہ طور پر زندگیاں بچا سکتی ہیں۔‘