نوٹ بندی کے خلاف اپوزیشن کا سڑک سے پارلیمنٹ تک مظاہرہ

نئی دہلی 23 نومبر (یو این آئی) بڑی کرنسیوں کی منسوخی کے معاملے پر گزشتہ چار دنوں سے پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کر کے رکھ دینے والی اپوزیشن جماعتوں نے آج اس معاملے پر مزید یکجہتی دکھاتے ہوئے پارلیمنٹ ہا¶س کے احاطے میں اپنے مطالبات کی حمایت میں دھرنا دیا اورمظاہرہ کیا۔ دس سے زیادہ اپوزیشن پارٹیوں کے قریب 200 ممبران پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے مجسمے کے سامنے جمع ہوکر کافی دیر تک اپنے مطالبات کی حمایت میں مظاہرہ کیااورپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بڑی کرنسیوں کی منسوخی پربحث کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے موجود رہنے کے ساتھ ہی اس معاملے پر لوک سبھا میں ضابطہ 56 کے تحت کام روکو تجویز کے ذریعے بات چیت کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ اپوزیشن والے اپنے ان مطالبات کو منوانے کے لئے گزشتہ چار دنوں سے بڑے پیمانے پر متحرک ہیں جس کی وجہ سے دونوں ایوانوںمیں کوئی کام کاج نہیں ہو پایا ہے ۔ دھرنے اور مظاہرے میں شامل رہنما¶ں میں کانگریس نائب صدر راہل گاندھی، راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر غلام نبی آزاد، لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ملک ارجن کھڑگے ، ترنمول کانگریس کے سدیپ بندوپادھیائے اور ڈیریک او برائن کے علاوہ جنتا دل یو کے شرد یادو، سماج وادی پارٹی کے رام گوپال یادو ، بہوجن سماج پارٹی کے ستیش چندر مشرا، ڈی ایم کے کے ترچشوا، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے طارق انور کے علاوہ بائیں بازو کی جماعتوں، قومی جنتا دل وغیرہ کے ایم پی شامل تھے ۔ اس موقع پر کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے حکومت کے نوٹ منسوخی کے فیصلے کے بعد ملک میں پیدا ہوئے حالات کے سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو گھیرتے ہوئے آج سوال کیا کہ کہیں کوئی گڑبڑ¸ ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آنے سے ڈرتے ہیں ۔مسٹر گاندھی نے کہا ”نوٹ کی منسوخی کا فیصلہ وزیر اعظم نے کیا ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کی اطلاع وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور حکومت کے چیف اقتصادی مشیر اروند سبرامنیم کو بھی نہیں دی گئی۔ یہ وزیر خزانہ کا نہیں وزیر اعظم کا فیصلہ ہے جس کی وجہ سے ملک کو بھاری نقصان ہوا ہے ۔وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آئیں اور ملک کو بتائیں کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے ۔ کہیں تو کوئی وجہ ہے جس سے وہ ڈرتے ہیں”۔ وزیر اعظم کو اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران ایوان میں رہنا چاہئے ۔ اس دوران مسٹر گاندھی نے نوٹ کی منسوخی کے اعلان سے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کو اس کی اطلاع دی گئی تھی یا نہیں، اس کی جانچ کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے قیام کی اپنی مانگ بھی دہرائی۔انہوں نے کہا کہ کانگریس کے ساتھ ہی تمام اپوزیشن پارٹی کالے دھن کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں یہ سوال کالے دھن کا نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ ملک کی سوا ارب آبادی کو معاشی افراتفری میں کس وجہ سے دھکیلا گیا ہے ۔ کانگریس کے نائب صدر نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم اقتدار کا مرکزیت چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے وزیر خزانہ اور اقتصادی مشیر کو بھی اس فیصلے کی اطلاع نہیں دی۔ ان کے اس فیصلے سے ملک کی معیشت پر منفی اثر ہوا ہے ۔ ملک کی معیشت متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کے دور کی طرح نہیں تھی مگر چل رہی تھی لیکن مسٹر مودی نے اچانک اس کو بھی جھٹکا دے دیا۔مسٹر گاندھی نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم کے اس فیصلے نے ملک کے غریب، کسان، مزدور اور چھوٹے کاروباری کو ختم کر دیا ہے ۔ ان کے لئے روزی روٹی کا بحران پیدا ہو گیا ہے ۔ لوگوں کے سامنے پیدا ہوئے اس بحران کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن کے تمام رکن پارلیمان متحد ہوکر حکومت سے اس معاملے پر بحث کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے 200 سے زیادہ ممبر پارلیمنٹ چاہتے ہیں کہ مسٹر مودی اپنے اس فیصلے کی وجہ پارلیمنٹ میں آکر انہیں بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر مودی کے اس فیصلے سے ملک کا عام آدمی پریشان ہوا ہے ۔ بینکوں اور اے ٹی ایم میں آپ کے پیسے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کا کوئی رکن پارلیمنٹ یا کوئی بڑا صنعت کار لائن میں کھڑا نہیں ہے ۔ ان لائنوں میں صرف عام لوگ صبح سے شام تک کھڑے ہیں۔مسٹر گاندھی نے کہا کہ بینکوں کی لائن میں کوئی سوٹ بوٹ والا یا بی جے پی کا کوئی رکن اسمبلی، ایم پی نہیں ہے بلکہ عام آدمی ہے ۔ لائن میں یہ لوگ دم توڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ”یہ شرم کی بات ہے کہ بینکوں اور اے ٹی ایم کی لائن میں لگنے کے دوران جن لوگوں کی موت ہوئی، انہیں پارلیمنٹ میں خراج عقیدت پیش نہیں کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں پہلے دن خراج عقیدت پیش کیا گیا لیکن اس میں لائن میں مارے گئے لوگوں کا نام نہیں لیا گیا۔ کیوں نہیں لیا گیا، کیونکہ مودی نے کہا تھا ان کا نام نہیں لینا ہے ”۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے نوٹ کی منسوخی کے فیصلے سے غربت، کسان اور عام آدمی متاثر ہو رہا ہے ۔ مغربی بنگال اور کیرالہ میں ماہی پروری صنعت ختم ہوگئی ہے ۔ انہی غریبوں کی آواز بن کر اپوزیشن متحد ہوکر مسٹر مودی سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آئیں اور اس فیصلے کے بارے میں ملک کو بتائیں۔انہوں نے کہا کہ مسٹر مودی کو گوا میں منعقدہ ریلی میں حصہ لینے اور موسیقی تقریب میں شامل ھونے کی فرصت ہے تو وہ اس اہم مسئلے پر بحث کے دوران پارلیمنٹ میں کیوں نہیں آ سکتے ۔