والدین کی فرماں برداری کتاب و سنت کی پاسداری

مبین احمدجامعی،اہرولی اکبر پور امبیڈکر نگر یو پی
+917618049339
خلَّاقِ کائنات کا قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔نیکی کا بدلہ کیا ہے مگر نیکی [احسان کا بدلا احسان ہی ہے](الرحمٰن :۶۰)حدیث شریف میں ہے :ترجمہ : جس نے لوگوں کا شکر یہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکر نہیں کیا ( صحیح بخاری شریف :کتاب الا ٰداب )آج کے حالات ایسے ہیں کہ اپنے دوستوں، یا جس شخص سے گھڑ ی بھر کی ر فاقت رہی ہو اور اس نے کوئی احسان کیا ہے،ہم تو اسے شکر گزاری کے جذبے سے یاد کرتے ہیں اور وقتاََ فوقتاََ اس کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔ مگر ہم کیوں اپنے ان ماں باپ کو بوجھ سمجھتے ہیں ، باعثِ زحمت جانتے ہیں اور انھیں بھلا دینا چاہتے ہیں؟ جنھوں نے ہمارا سارا بوجھ اٹھایا ، ہماری زندگی کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے ،ہمارے لیے ، ہماری زندگی کے لیے خود کو طرح طرح کی پریشانیوں میں ڈالتے رہے اور جن کا سراپا، ہمار ے حق میں احسانات و انعامات سے عبارت ہے ۔یاد رہے، یہ آثارِقیامت سے ہے کہ لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں گے مگر اپنے ماں باپ کو زیادہ وقت نہیں دیں گے ۔ کیا ہم آثارِقیامت کا حصہ بن رہے ہیں؟
قرآنِ عظیم اور اطاعتِ والدین قرآن مجیدمیں متعدد مقامات پہ والدین کے ساتھ حسن سلو ک کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ سو رۂ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا:
اور تمہارے رب نے حکم فر مایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (بنی اسرائیل: ۲۳)
مذکورہ آیۂ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنی عبادت کا حکم دیا ۔اس کے بعد ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ۔ اللہ تعا لیٰ کی عبادت اور ما ں،باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم نہایت حکیمانہ ہے ۔
مخلوق میں جتنی نعمتیں اور احسانات ماں باپ کے اولادپر ہیں،اتنی نعمتیں اور احسانات اور کسی کے نہیں،کیوں کی بچہ ماں باپ کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے۔حضرت مِسْوَرْ ابن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔ْ(صحیح البخاری،رقم الحدیث:۳۷۱۴،سنن ابو داؤد،رقم الحدیث:۲۰۷۱،سنن ترمزی،رقم الحدیث:۳۸۶۷)
ماں باپ کی بچہ پر بہت زیادہ شفقت ہوتی ہے ،بچہ کو ضرر سے دور رکھنا اور اس کی طرف خیر کو پہنچانا ان کا فطری اور طبعی وصف ہے۔ وہ خود تکلیف اٹھا لیتے ہیں،بچہ کو تکلیف نہیں پہنچنے دیتے اور ان کو جو خیر بھی حاصل ہو ،وہ چاہتے ہیں کہ یہ خیر ان کے بچے کو بھی پہنچ جائے ۔جس وقت انسان انتہائی کمزور اور انتہائی عاجز ہوتا ہے اور وہ سانس لینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا وہ اپنے چہرے سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتا، اُس وقت اس کے تمام ضروریات کے کفیل اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔اسی لیے اللہ رب العزت کا حکم ہے کہ :
اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں، بڑ ھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں ( اُف تک ) نہ کہنا اور انھیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔ (بنی اسرائیل:۲۳ )
بڑھاپے کا رنگ جب گہرا ہونے لگے اور عمر میں دنوں کی تنگی نظر آنے لگے ،نقاہت و کمزوری، جوان ہونے لگے تو بے بسی اور بے چارگی، صاف جھلکنے لگتی ہے۔امید کا وہ چراغ جسے انھوں نے خود، روشن کیا ہے،اب ا س کی سخت ضرورت ہو تی ہے۔
اکثر و بیشتر والدین ، عہدِ جوانی سے گزر کر بڑھاپے میں داخل ہوتے ہیں تو وہی اولادجسے وہ بچپن میں کھلاتے پلاتے رہے ،اپنے خون پسینے کی کمائی جس کی نذرکرتے رہے ،جس کے لیے اپنا سکھ ،چین قربان کیا ، جس کی ذرا بھر تکلیف انھیں گوارا نہ تھی ، خود بھوکا رہ کر اپنے منھ سے لقمہ نکال نکال کر جس کے منہ میں ڈالتے رہے، وہی اولاد جب جوان ہوتی ہے تواپنے والدین کو مجبور و بے بس پاتی ہے اور اسے وہ زمانہ یاد نہیں رہتا کہ یہی والدین تھے کہ جب میں بیمار ہوتا تھاتو یہ آنکھوں آنکھوں میں ساری رات گزار دیا کرتے تھے۔یہ سب اسے کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔اسی درد اور احساس کی ترجمانی میں قرآن گویا ہے :
اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا، نرم دلی سے ۔( بنی اسرائیل :۲۳)ایک پرندے کے لیے سب کچھ اس کا اپنا پَرْہے ۔اشارہ یہ کہ والدین سے اس طرح پیش آؤ کہ جو تمھاری سب سے عزیز چیز ہو اسے بھی ان کے قدموں پر نچھاور کر دو۔ارشاد ربانی ہے:اور عرض کر کہ اے میرے رب !تو ان دونوں پررحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن (بچپن) میں پالا۔(بنی اسرئیل : ۲۴)اے پروردگار!میرے ماں باپ پر اسی طرح ،رحم فرما جس طرح ،انھوں نے مجھے اُس وقت محبت و شفقت کی آ غوش میں پالا تھا۔جب میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے اپنے نفع و نقصان کاکوئی شعور نہ تھا۔میں ہر وقت ان کی توجہ اور شفقت و رحمت کا محتاج تھا۔رب ا لعٰلمین کی طرف سے یہ دعا کایہ طریقہ اور سلیقہ اس لیے سکھایا گیاتاکہ جان لے کہ ماں باپ کا حق کبھی ادا ء ہی نہیں ہو سکتا ۔ حدیثِ رسول ﷺ اوراطاعتِ والدین عبد الرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد رضی اللّٰہُ عنھما سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے بیان کیا کہ: ’’اللہ کے رسول ﷺ نے تین بار فرمایا :کیامیں تمھیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ لوگوں نے جواب دیا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا
اور اللہ کے رسول ﷺ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے فرمایا کہ
سن لو! جھوٹ بولنا اوراللہ کے رسول بار بار اسے دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے سوچاکاش اللہ کے رسول ﷺ خاموش ہو جاتے۔(؂؂؂؂؂؂؂بخاری شریف ،کتاب الشھادات،باب: قیل فی شھادۃالزور )