اظہاررائے کی آزادی پر قدغن لگانا غیر جمہوری عمل: کنہیا کمار

اظہار رائے کی آزادی سے لے کر نوٹ بندی جیسے کئی اہم ایشوز پر گذشتہ دو ڈھائی سال کے اندر کئی سوالات ملک کو درپیش آئے۔ چاہے وہ روہت ویمیلا کی خود کشی ہو یا پھر اخلاق کا قتل یا پھر جے این یو جیسے تعلیمی اداروں میں ملک مخالف نعروں کی بات ہو۔ان سارے سوالات نے گذشتہ دو ڈھائی سال کے اندر ملک میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم مدعانوٹ بندی کا رہا ہے جس سے ملک کے ہر ایک فرد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے باوجود عوام حکومت کے فیصلے کو نا چاہتے ہوئے بھی مانتی جارہی ہے کیونکہ عوام اس آسرے میں بیٹھی ہے کہ ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں کچھ بہتری کی صورت پیدا ہوجائے۔
جے این ایس یو کے سابق صدر کنہیا کمار نے کہا کہ دیکھنا اب یہ ہے کہ ملک میں عوام کے لئے کب اچھے دن آتے ہیں۔ اور وزیراعظم مودی عوام سے کئے گئے وعدے پورا کرپاتے ہیں یا نہیں یہ ایک بڑا سوال ہے جسے اٹھانا ملک کے ہرایک فرد کا دستوری حق ہے جسے کسی بھی ہتھکنڈے سے دبایا نہیں جاسکتا۔
اردو روزنامہ تاثیر کے مینیجنگ ایڈیٹر ابصار احمد صدیقی ملک کے موجودہ تناظر میں جے این ایس یو کے سابق صدر کنہیاکمار سے انٹرویو کرتے ہوئے
تاثیر:کیا جے این یو میں سیاسی مداخلت ہورہی ہے؟ یا پھر جے این یو اسٹوڈنٹس خود کیمپس سے باہر نکل کر سیاست کرنا چاہتے ہیں؟
کنہیاکمار:کوئی بھی تعلیمی ادارہ اسٹوڈنٹس اور ٹیچر سے چلتا ہے۔ جب ٹیچر اور اسٹوڈنٹس دونوں اپنے کاموں کو بہتر ڈھنگ سے کریں گے تو مجھے نہیں لگتا ادارے سے باہر طلبا اپنے حقوق کی مانگ کرنے کے لئے باہر جائیں گے۔ ظاہر سی بات ہے جب طلبہ کو یونیورسٹی کی انتظامیہ پریشان کرے گی اور اُسے بلا وجہ کالج یا پھر یونیورسٹی سے باہر نکالا جائے گا تو پھر ان کے خلاف اسٹوڈنٹس اپنی آواز اٹھائیں گے۔ اسے آج کی میڈیا یا نیوز چینل سیاست کہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔لیکن ہاں ہم سب لوگ اسٹوڈنٹس کے حقوق کے لئے سڑکوں پر اترتے رہیں گے۔ رہی بات جے این یو سیاسی مداخلت کی تو یہ بات صحیح ہے کہ گذشتہ دو ڈھائی سال سے جے این یو میں سیاسی مداخلت ہورہی ہے ۔ اس کا کھلا نظارہ گذشتہ کچھ مہینوں میں لوگوں نے دیکھا بھی ہے۔ دوسری بات جے این یو کے اندر ایسی سوچ کو لازم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے یہاں کا سیکولر ماحول خراب ہوسکے لیکن ہم لوگ اسے کسی بھی طرح پنپنے نہیں دیں گے۔
تاثیر:نجیب احمد کو غائب ہوئے کافی عرصہ ہوچکا ہے آخر اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ نجیب کے ساتھ مارپیٹ کرنے والے طلبا کے ساتھ آخر پولیس نرمی کیوں برت رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ حکومت کے اشارے پر پولیس نے خاموشی اختیار کرلی ہے؟
کنہیا کمار:نجیب احمد کا غائب ہونا جے این یو اور جے این یو انتظامیہ کے لیے شرمناک بات ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور دہلی پولیس آج تک اسے کھوجنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ میرا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے نجیب کے ساتھ مارپیٹ کی ان کے ساتھ پولیس سختی سے پیش آئے اور حقائق کو ملک کے سامنے لائے۔ لیکن دہلی پولیس ایسا نہیں کرسکتی ہے کیونکہ وہ تو مرکز کے اشارے پر بے گناہوں کو پھنساتی ہے اور گنہگاروں کو آزاد رکھتی ہے۔ اے بی وی پی سے جس کا بھی تعلق ہوگا وہ جو چاہے کرسکتا ہے اور جو لوگ ان کے یا پھر ان کی سوچ کی مخالفت کریں گے انہیں پھنسا دیا جائے گا۔ لہٰذا اب تعلیمی اداروں کو بھی سیاسی اڈہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آج ملک میں کچھ طاقتیں اتنی مضبوط ہوگئی ہیں کہ اگر آپ حکومت کے کسی بھی یوجنا یا پھر کسی پالیسی پر تنقید کرتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو سرعام بے عزت کیا جاتا ہے یا پھر غدار کہا جاتا ہے۔ آج ملک کی ایسی حالت ہوگئی ہے جہاں ہر کوئی خوف کے سایے میں جی رہا ہے۔ لیکن میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ برسات کے بادل فقط چند لمحوں کے ہوتے ہیں ، ہندوستان کے عوام موقع کے انتظار میں ہیں۔ البتہ جو لوگ ملک میں سیکولر ڈھانچے کو قائم رکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے کاموں کو خاموشی کے ساتھ کررہے ہیں۔
تاثیر: کیا نوٹ بندی سے کالا دھن کا خاتمہ ہوپائے گا۔ وزیراعظم کے اس فیصلے پر آپ کی کیا رائے ہے؟
کنہیا کمار: نوٹ بندی سے کالا دھن ختم ہوگا یا نہیں ہوگا یہ بعد کی بات ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں عوام کو جو پریشانیاں ہورہی ہیں اور 90 لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں اس کا جواب کون دے گا۔ کیا وزیراعظم مودی جی نے اپنے دوستوں کی نوٹ بندی کے ذریعہ مدد نہیں کی۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ عوام کو گمراہ کرنا بند کریں۔ جلسوں میں رونے کے بجائے اپنی پالیسیوں کو شیئر کریں تب تو کچھ معاملات حل ہوں گے ورنہ ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔
تاثیر:کیا آپ کو نہیں لگتا اپوزیشن جماعتیں عوامی ایشوز کو مضبوط انداز میں نہیں اٹھا رہی ہیںجس کی وجہ سے حکومت من مانی کررہی ہے اور اس کا خمیازہ عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے؟
کنہیا کمار: یہ بات صحیح ہے اپوزیشن اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کررہی ہے۔ اپوزیشن کی کمزوری کا خمیازہ آج ملک کے 125 کروڑ عوام اٹھانے پر مجبور ہیں۔
تاثیر: کیا آپ ہمیشہ مودی جی کی مخالفت کرتے رہیں گے؟
کنہیا کمار: ایسا نہیں ہے کہ ہم مودی جی کے مخالف ہیں ۔ ہم مخالف ہیں ان کے کالے کارناموں کے جو گذشتہ دو ڈھائی سال سے ملک میں انجام دیے جارہے ہیں۔ مودی جی اگر کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو ہم ان کی تعریف بھی کریں گے اور ان کا ساتھ بھی دیں گے۔ لیکن کیا یہ جائز ہے بھوپال میں آٹھ لوگوں کو جیل سے باہر نکال کر گولی مار دیا جاتا ہے اور اس کے اوپر آواز اٹھانے یا پھر سوال کرنے پر دھمکی دی جاتی ہے۔ لہٰذا ہمارے ملک میں ایسا نظام یا پھر ایسی سوچ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جو عوام مخالف ہو اور جو بے گناہ عوام کو بھی پریشان کرے۔ بہرحال کچھ دن کی چاندی ہے جو کرنا ہے کرلیں۔
جے این ایس یو کے سابق صدر کنہیا کمار نے ایسے تمام ضروری ایشوز پر روزنامہ تاثیر سے گفتگو کی۔