جہےز اےک لعنت ہے

شمےم اقبال خاں
موبائل: 9506953183
جہےز اےک لعنت ہے اوراس لعنت کو گلے لگانے کے لے ہرکوئی اتاو¿لا رہتا ہے۔اےسا کےوں ہوتا ہے ؟ہندوبھائےوں کے ےہاںجہےزکا چلن بہت ہے حالا نکہ بہت سخت قانون ہے اس کے باوجودجہےز کی رقم طے کی جاتی ہے، ’مطالبہ ‘ اور ’فراہمی‘ ((Demand & Supply مےں اگر مناسبت نہ رہی تو شادےاں طے نہےںہو پاتی ہےں۔لڑکے کی حےثےت کے حصاب سے ہی مطالبہ نافظ کےا جاتاہے۔دونوں پارٹےاں مول بھاو¿ کرتی ہےں، ان کی مدد کے لےے اےک دلال معاف کےجئے گا ’اےجنٹ‘ بھی ہوتا ہے جو کچھ اچھے کمےشن کے بدلے مےں شادی طے کرا دےتا ہے اور پھر ان کی زندگی کی گاڑی چل پڑ تی ہے لےکن ہوتی بڑی جوکھم بھری۔اگر دونوں شرےف اور سمجھ دار ہوے تو نبھ جاتی ہے ورنہ سارا ٹھےکرا بہو کے سر پھوٹتا رہتا ہے۔
لڑکےوں کے ساتھ بہت ہی مظالم ہوتے ہےں،شادی سے پہلے بھوکی نظروں کی شکار رہتی ہے، ان شکارےوں کے عمر کی کوکئی قےد نہےں ہوتی۔فلموں، انٹر نےٹ اور ٹیویپروگراموں نے ۰۱۔۱۱ سال کے لڑکے کو بھی بالغ بنا دےا ہے ۔جوان اور عمر دراز لوگ اپنی اپنی عمر کے حساب سے تجربہ کار بھی ہوتے ہےں اور اپنا اپنا تجربہ نو جوان لڑکےوںکو ورغلانے مےں استعمال کرتے رہتے ہےں
ان بھولی بھالی لڑکےوں کو جو ےہ سبز باغ دکھےا گےا ہے کہ ’تم مردوں سے کسی طرح بھی کم نہےں ہو‘قطعاً غےر مناسب ہے وہ اس لےے کہ عورت صنف نازک ہے، صنف قوی سے برابری تو کر انی ہی نہےں چاہئے۔لےکن پےسے کا بھوکا خود غرض مرد نے صرف اس لےے ےہ راہ لگائی ہے کہ اس طرح سے کچھ پےسے وہ کما کر لائے گی تو اسی کے جہےز جٹانے مےں آسانی ہوگی۔باپ، بھائی اور شوہر کی مدد کے لےے بھی لڑکےاں نوکری کرنے لگتی ہےں۔ان ہی وجوہات کے سبب لڑکےوں کی شادی مےں تاخےر ہوتی ہے بلکہ اسکو اس طرح کہنا چاہے¿ کہ لڑکےوں کی شادی کی عمر نکلنے کے بعد شادےاں ہوتی ہےں۔تاخےر سے کی گئی شادےاں اپنے ساتھ بڑے مسائل رکھتی ہےں مثال کے طور پردونوں کے مزاج مےں سختی، اپنی بات کو منوانے کی ضد۔چونکہ بہو جہےز لےکر آئی ہے تو کےوں دبے، اور وہ شوہر ہے تو وہ کےوںدبے؟اس طرح کے مسائل سے بچنے کے لےے شادےاں وقت پر ہو جانی چاہے¿۔
’عورت مردوں سے کسی طرح کم نہےں ہےں‘اس جملے کے بجائے اگر ےہ کہا جائے کہ’عورتوں کے حقوق مردوں کے حقوق سے کسی طرح کم نہےں ہےں‘ تو ےہ انصاف اور سمجھ داری کی بات ہے۔لڑکی کا حق تو دےنے سے رہے الٹے اس سے نوکری کرواکر جےب گرم کرنے لگے اور اس کو عورت کی آزادی کا نام دےا اور اسی آزادی کی وجہ سے بھارت مےں ۲۱۰۲ئ مےں 8,233خواتےن جہےز کی بھےنٹ چڑھےں،24,923 کی عصمت دری ہوئی،شوہر ےا رشتہ دار کی طرف سے 1,06,527خواتےن پر مظالم ڈھائے گئے اور 38,262خواتےن کا اغوا ہوا۔ےہ وہ اعداد ہےں جن کے متعلق معاملات درج ہوئے۔بہت سے معاملات لوک لاج کی وجہ سے درج نہےں ہوئے ہوںگے۔اسلام نے صنف نازک کو در در بھٹک کر پےسہ کمانے کو نہےں کہا ہے بلکہ ےہ کام مرد کے سپرد کےا ہے اور عورت کوگھرجےسی محفوظ جگہ مےں رہ کرگھر کے نظم کو سنبھالنے کی ذمہ داری دی ہے۔
اسلام نے لڑکی اور لڑکوں کی شادی کامسئلہ اور طرےقہ بھی بہت آسان کر رکھا ہے۔ حضرت علیؓ نے اللہ کے نبی سے ان کی پےاری بےٹی حضرت فاطمہؓ سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے فرماےا ٹھےک ہے شادی کر و لےکن مہر کےا دوگے۔حضرت علیؓ نے فرماےا مہر دےنے کے لےے تو مےرے پاس کچھ نہےں ہے۔ آپ نے فرماےا ”مےں نے تم کو اےک زرّہ دےا تھا، اسے بےچ کر مہر کا انتظام کر لو“۔ حضرت علیؓ نے اےسا ہی کےا، اس رقم سے مہر ادا کیا اور حضرت فاطمہؓ کی ضرورےات کا کچھ سامان بھی خرےدا۔ اس طرح سے پےغمبر اسلام کی پےاری بےٹی کی شادی ہوئی۔وہ زرّہ حضرت عثمان غنیؓ نے خرےدا تھا اور بعد مےں حضرت علیؓ کو ہدےہ بھی کر دےا تھا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مشہور صحابی حضور اقدس صلی اللہ علےہ وسلم کی مجلس مےںحاضر ہوئے۔آپ نے دےکھا کہ ان کی قمےص پر اےک زرد نشان لگا ہوا ہے،آپ نے پوچھا تمہاری قمےص پر ےہ نشان کےسا ہے؟حضرت عبدالرحمن ؓ نے فرماےا ’مےں نے نکاح کےا جس کی وجہ سے خوشبو لگائی تھی، ےہ اُسی کا نشان ہے۔آپ نے دعا دےتے ہوئے فرماےا’اللہ تمہےں برکت عطا فرمائے‘ اور پھر فرماےا کہ ’ولےمہ کر لےنا چاہے اےک بکری کے ذرےعہ ہو‘۔
ےہ تو شادی کی سادگی کی انتہا ہے۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ صحابہ کرام مےں سے ہےں اور آپ کے دور کے رشتہ دار بھی ہےں لےکن اپنے نکاح مےںرسول اللہ کو نہےں بلاےااور آپ نے شکا ےتاً بھی ےہ نہےں کہا کہ اکےلے اکےلے نکاہ کر لےا، ہمےں بلاےا بھی نہےں بلکہ ےہ فرماےا ’ولےمہ کر لےنا‘۔اس طرح سے صحابہ کرام کی شادی کے بہت سے واقعات ہےںکہ آپ کے صحابہ کرام نے شادی کر لی اور آپ کو بعد مےں معلوم ہوا۔اگر کسی کی شادی مےں شکاےتاً آپ فرما دےتے کہ ’مجھے نہےں پوچھا‘ تو پھر ہر صحابہ کرام کی شادی بغےر حضور اقدس کی شرکت کے تکمےل نہ ہوپاتی۔
جب حضرت فاطمہ ؓ کا نکاح ہوا تو آپ نے اس موقع پر فرماےا کہ ابو بکر و عمر کو بلا لاو¿، نکاح ہونے والا ہے۔معلوم ہوا کہ خاص خاص لوگوں کو بلانا چاہئے۔آپ نے ےہ بھی فرماےا کہ نکاح علی الاعلان ہونا چاہئے،چونکہ نکاح اےک عبادت ہے اس لےے اسے مسجد مےں بغےر شور و شغب کے ہوناچاہئے۔
ہماری ےہ بدبختی ہے کہ نکاح اےک عبادت ہے جسے ہم نے،غےروں کی نقل کر کے، گناہ مےں شرابور کر رکھا ہے۔ہماری ےہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نکاح کو گناہوں سے پاک کرکے اسے برکت والا بنائےں۔عےسائی اپنی شادےاں چرچ مےں کرتے ہےں جب کہ ان کے ےہاں اس طرح کا کوئی حکم نہےں ہے لےکن ہداےت کے باوجود ہم بڑے بڑے شادی گھر بُک کراتے ہےں اور اپنی دولت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہےں(بھلے قرض لے کر کرےں) اور غرےبوں کے جزبات کو ٹھےس پہنچاتے ہےں۔