خد مت خلق اوراسلامی ہدایات

اسلام میں جتنی اہمیت ان عبادات کی ہے،جن کا تعلق بندے اوراس کے رب سے ہے،اتنی ہی بلکہ بعض معنوںمیں اس سے بھی زیادہ اہمیت ان عبادات اور اعمالِ صالحہ کی ہے،جن کا تعلق بندوںسے ہے۔اس ضمن میںمخلوق ِخدا کی خدمت کرنا، ان کے کام آنا، ان کے مصائب اور پریشانیوں کو دور کرنا، ان کے دکھ درد کو بانٹنا اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمخواری اور شفقت کرناجیسے نیک اعمال آتے ہیں۔ ان تمام اعمال کومختصرطورپر خدمتِ خلق سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، خدمت خلق کتنی بڑی نیکی اور کتنا افضل عمل ہے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا کیا مقام ومرتبہ ہے، یہ ایک نہایت ہی اہم اور عظیم الشان موضوع ہے، جس پرعلمی اعتبارسے علماءنے سیکڑوںکتابیں لکھی ہیں۔قرآنی آیات،احادیثِ پاک اور فقہی تصنیفات کے زیادہ تر حصوںکاتعلق انسانوںکے باہمی معاملات سے ہے اوران سب کا مرکزو محورکسی نہ کسی طورخدمتِ خلق کوقراردیاجاسکتاہے۔
قرآن کے مطابق تخلیقِ انسانی کی غرض عبادتِ خداوندی ہے،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیداکیاہے“۔ ( الذاریات ،آیت:56) اس آیت کاظاہری مفہوم تویہی ہے کہ انسانوںاور جناتوںکوصرف اس لیے اس دنیامیں بھیجاگیاہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں،مگر مفسرین لکھتے ہیں کہ عبادت سے یہاں مرادصرف پانچ وقت کی نمازیں اور نوافل نہیں، بلکہ یہ تعبیر اپنے جامع اور عام مفہوم میں رضائے الٰہی کی طلب کے مترادف ہے، امام رازی نے اس آیت کی تفسیرکے ذیل میں لکھاہے کہ ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں،ایک امرِ الٰہی کی تعظیم، دوسری خلقِ خدا پر شفقت۔ دوسرے لفظوں میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی۔ عبادت کے مفہوم میںجو وسعت ہے،اس کا اندازہ قرآن مجید کی ایک دوسری آیت سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے:” نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کرو بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ، قیامت کے دن، فرشتوں (آسمانی) کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اس کی محبت میں اپنامال خرچ کرے، قرابت داروں، مسکینوں، راہ گیروں اور سائلوں پر اور گردنوں (غلاموں)کو آزاد کرانے میں“۔ (آیت: 177)
نبی پاکﷺکی سیرت مبارکہ میں اورآپ کے جلیل القدرصحابہ کی زندگیوںمیں اس کی سیکڑوںمثالیں ملتی ہیں۔آپنے تواپنی امت کے لیے ایک اصول بیان فرمادیاہے کہ”دین خیرخواہی کانام ہے“اس خیرخواہی میں عملی خیر خواہی بھی شامل ہے اور زبانی خیرخواہی بھی۔یعنی اگر کوئی بھائی آپ سے کسی معاملے میں مشورہ طلب کرے تواسے اپنی سمجھ کی حد تک اچھااور مفید مشورہ دیناچاہیے،اسی طرح اگرکوئی شخص مصیبت میں پھنس جائے اور اسے مالی مددکی ضرورت ہوتواپنی استطاعت کے مطابق اس کی مددکرناچاہیے۔یہ دونوںچیزیںدین کے بنیادی تقاضوںمیں شامل ہیںاوران سے یہ ثابت ہوگاکہ ہم نے دین کوکتنا سمجھاہے اوراسے اپنی عملی زندگی میں کس حدتک نافذکرتے ہیں۔ایک دوسری مشہورحدیثِ پاک میں مزید وضاحت کے ساتھ اللہ کے نبیﷺایک دوسرے کے حقوق کی تشریح کرتے ہیں،فرماتے ہیں:”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بھلائی کے ساتھچھ حقوق ہیں(۱)ملاقات کے وقت سلام کرے(۲)اس کی دعوت قبول کرے(۳)اس کی چھینک کا جواب دے(۴)بیماری کے وقت اس کی عیادت کرے(۵)جب اس کی وفات ہوتواس کے جنازے میں شریک ہو(۶)اورجواپنے لیے پسند کرتاہے وہی دوسرے بھائیوںکے لیے بھی پسند کرے“۔اس حدیث پاک میں جن چھ حقوق کی نشان دہی کی گئی ہے ان کا تعلق انفرادی طورپرہر مسلمان سے اور اجتماعی طورپرپوری ملتِ اسلامیہ سے ہے۔اگران حقوق کی ادائیگی کا ہم سب اہتمام کرنے لگیںتومعاشرے میں ایک نہایت خوشگوارانقلاب برپاہوسکتاہے اور باہمی ہم آہنگی و اخوت کی مثال قائم ہوسکتی ہے۔صحابہ¿ کرام اپنے نبیﷺسے جوکچھ سنتے تھے اسے فوری طورپراپنی عملی زندگی میں نافذکرتے تھے،نیکی کرنے میںان میں سے ہر ایک دوسرے پر سبقت لے جاناچاہتاتھا۔اس سلسلے میں عہدِنبوی کے صرف ایک واقعے کاذکرکافی ہوگا،یہ واقعہ محض اسلامی تاریخ کے ایک زریںاورسنہرے پہلوہی سے روشناس نہیں کراتابلکہ یہ ہمارے لیے سبق آموزبھی ہے۔ایک مرتبہ نبی اکرمﷺنے مسلمانوںکی ضرورتوںکے پیش نظرصحابہ¿ کرام کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے انھیں صدقے کاحکم فرمایا، حضرت عمرؓفرماتے ہیں”اس زمانے میں میرے پاس کچھ مال موجودتھا،میں نے سوچااگرمیں (نیکی میں)ابوبکرؓسے کبھی آگے بڑھ سکتاہوںتوآج اس کا اچھا موقع ہے،یہ سوچ کرمیں گھرآیااورجوکچھ بھی گھرمیں رکھاتھا،اس میں سے آدھاحضورﷺکی خدمت میں لے آیا،آپنے دریافت کیا”گھروالوںکے لیے کیاچھوڑا؟“تومیں نے کہاکہ”ان کے لیے آدھامال چھوڑآیاہوں“پھرحضرت ابوبکرؓاپنے گھرسے مال لے کر آئے،ان سے اللہ کے نبیﷺنے دریافت کیا”گھروالوںکے لیے کیاچھوڑا؟“توانھوںنے جواب دیا”اللہ اوراس کے رسول کے نام کی برکت اور ان کی رضاجوئی و خوشنودی کو چھوڑ کر آیاہوں“۔حضرت عمرفاروقؓکہتے ہیں”اس وقت مجھے یقین ہوگیاکہ میں ابوبکرصدیقؓسے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا“