لڑکی کی ولادت رحمت یا زحمت؟

نجینئر شاہ عظمت اللہ ابوسعید

اسلام کلی مساوات اور عدل کی دعوت دیتا ہے۔حق تلفی، ظلم و زیادتی اور ناانصافی اسلام کے مزاج رحم و کرم کے خلاف ہے۔ بچوں پر رحم و شفقت کے سلسلہ میں اسلام نے مردو عورت، مذکر و مو¿نث اور نر و مادہ میں کوئی تفریق نہیں کی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ مقدس پر عمل ہو۔
اعدلواھو اقرب للتقویٰ
عدل کرو یہی بات تقویٰ کے نزدیک ہے
نیز نبی اکرم صلی اللہ علی وسلم کا حکم نافذ ہے جو آپ نے حدیث کے ذریعہ دیا ہے۔ اعدلوابین ابنائکم، اعدلو ابین ابنائکم تم اپنی اولاد کے درمیان عدل و مساوات کرو، تم اپنی اولادکے درمیان عدل و مساوات اور برابری کرو۔
جب اسلام رخسار کائنات پر جگمگایا دنیا کی ہر چیز منور و تابندہ ہوگئی۔ کفرو شرک، جہالت و بربریت، سفاکیت و درندگی کا خاتمہ ہوا۔ اسی بدحالی کے درمیان اس صنف نازک کا کوئی ہمدرد و غمگسار نہ تھا، ظلم و ستم کی چکی میں پس پس کر عورت کراہ رہی تھی اورنود میدہ کلیاں شگفتہ ہونے کی آرزو میں سپردِ خاک ہوجاتی تھی گویا کہ بعض قبائل کو لوگ بچیوں کو زندہ گور غریباں پہنچا دیا کرتے تھے۔ ان کی پیدائش ننگ و عار تھی، عزت وقات، عظمت و تقدس پر داغ تھیں، ان کی پیدائش زحمت خیال کی جاتی تھی، اس اضطراب کے عالم میں خدائی آواز نے زندہ درگور ہونے سے بچا لیا اور بیٹی کو عظیم نعمت قرار دیکر تصور دے دیا کہ یہ سراپا رحمت ہے زحمت نہیںہے۔
پیارے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ جس نے دو لڑکیاں پائی اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی تو وہ دونوں اسے جنت میں داخل کروائیں گی اور دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں تین لڑکیاں ہوں اس گھر میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اسلام نے ہر باپ کو مزاج عطا کیا ہے کہ جب بازار سے کوئی کھانے پینے کی چیز لاو¿ تو پہلے لڑکی کو دو بعد میں لڑکے کو دو، کیونکہ لڑکی کا دل نرم و نازک ہوتا ہے۔ یہ امر مبنی بر حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب و ادیان کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا مذہب سوائے مذہب اسلام کے نہیں ہے جس نے بیٹی کے بارے میں عمدہ فکر و مزاج، عزت و وقار اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمگساری کا جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے صرف ان کو سپرد خاک ہونے سے بچایاہی نہیں بلکہ عالم رنگ و بو کی زینت قرار دے دیا۔ اور ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کو جنت میں جانے اور دیگر اخروی نعمتوں سے شاد کام ہونے کا ذریعہ قرار دیا۔ لہٰذا بیٹیوں کی خاطر داری دل جوئی زیادہ کریں۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ارشاد نبویﷺ ہے کہ جس کے گھر لڑکی پیدا ہو پھر وہ اس کو زندہ دفن نہ کرے، نہ ہی اس کو ذلیل سمجھے اور نہ ہی لڑکے کو اس پر اہمیت دے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا (ابو داو¿د شریف)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملاکر بتایا (مسلم شریف)، بخاری و ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ اپنی لڑکیوں کو پیار و محبت سے پرورش کریں گے تو وہ بچیاں بروز محشر جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جب تم اپنے بچوں میں کوئی چیز تقسیم کرو تو لڑکیوں سے شروع کرو کیونکہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں والدین سے زیادہ محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔
عورت حامل ہونے کے بعد یہ تمنا کرے کہ لڑکا پیدا ہو اگر لڑکی پیدا ہو جائے تو اس کو زحمت نہ سمجھے، چہرہ افسردہ نہ کرے دل کو غمزدہ نہ کرے، حسرت و افسوس کے باعث اپنی ہتھیلی نہ ملے، ناامیدی و مایوسی کا چراغ نہ جلائے، یہ کسی مسلمان عورت کے لئے مناسب نہیں ہے بلکہ خدا کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس عظیم نعمت سے نواز دیا ہے اور اس کی گود بھر دی ہے۔ اس کے خاموش آ نگن میں رنگت بھرنے والی بچی آچکی ہے جو اس کے لئے رحمت بن کر آئی ہے، اپنا رزق اپنے ساتھ لے کے آئی ہے۔یہ تو خدا وند قدوس کے قبضہ قدرت میں ہے جس کو چاہے بیٹا دے جس کو چاہے بیٹی دے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یھب لمن یشاءاناثاً و یھب لمن یشاءالذکور
وہی مادر شکم میں صورت ، گرمی کا حکم دیتا ہے ۔ اس کی قدرت میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے اس کی عطا کردہ نعمت پر شکر ادا کرے،سینے سے لگائے ،اس کو پیار و محبت کی نظر سے دیکھے، اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دے تاکہ وہ سرمایہ ¿ آخرت بننے اور جنت میں جانے کا سامان فراہم ہو، اس کو زحمت خیال کرنا اور اس کی پیدائش پر غمزدہ ہو جانا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے جو کفار کا طریقہ کار ہوتا ہے۔معاشرے میں پھیلی ہوئی ایسی بیماری ہے جس کی کڑی دورِ جاہلیت سے ملتی ہے۔ دین اسلام میں اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن مقدس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے ۔
تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ عرب کے ابو حمزہ نامی آدمی نے ایک عورت سے شادی کی وہ لڑکے کے خواہشمند تھے لیکن اس کے یہاں لڑکی پیدا ہوگئی تو انھوں نے اپنی بیوی کے پاس آنا جانا چھوڑ دیا اور دوسرے مکان میں رہنا شروع کردیا۔ ایک سال کے بعد جب اس بیوی کے گھر کے پاس گزر ہوا تودیکھا کہ وہ اپنی بچی سے دل لگی کر رہی ہے اور اشعار گنگنا رہی ہے۔ بیوی کے اشعار کو سن کر اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً اس کے گھر گئے اور بچی کے سر کا بوسہ لیا اور اللہ تعالیٰ نے بیٹی کی شکل میں جو عطیہ عطا کیا تھا اس پر خوشی و رضا مندی کا اظہار کیا۔