کربلا میدان میں جلسہ¿ اعزاز اور ایک شام منور رانا کے نام

ہوڑہ 3 جنوری(محمد نعیم) حسب اعلان مذکورہ پروگرام اردو ادب کی روایتی آن بان اور شان کے ساتھ 31 دسمبر بروز سنیچر بمقام پیل خانہ کے کربلا میدان،ہوڑہ میں قومی یکجہتی کے پیش نظر منشی پریم چند راشٹریہ منچ کے بینر تلے نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ انعقاد پذیر ہوا جو دو ادوار پر مشتمل تھا۔پہلا دور جلسہ اعزازیہ کی نسبت سے 7بجے شب شروع ہوا جسکی صدارت سردار بچن سنگھ سرل نے کی اور نقابت کے فرائض ثقلین حیدر فعال رکن منشی پریم چند راشٹریہ منچ نے بحسن خوبی انجام دئیے۔سوامی وتوانند مہاراج پرنسپل وکرم ودالیہ،بیلور مٹھ نے ہندو مسلم اتحاد پر پرمغز تقریر کی بزم پرواز کے صدر جناب اسماعیل پرواز نے پروگرام کے تعلق سے تمہیدی گفتگو کی اور منشی پریم چند راشٹریہ منچ کے عہدیداران کی خوب سراہنا بھی کی خاص الخاص الحاج علیم الدین شاہ ہندو مسلم سرکشا جماعت کے سربراہ کی پذیرائی کی اور سوشل ایوارڈ سے نوازا۔ اس پروگرام کی کامیابی کا سہرا جن حضرات کے سر جاتا ہے جنہوں نے دام درم سخن خوب ساتھ دیا ان میں افضل خان،شعبان انصاری اور امتیاز بھارتیہ قابل ذکر ہیں۔جن معزز حضرات کو مختلف رہنماو¿ں کے ہاتھوں ایوارڈ سے نوازا گیا ان میں مرحوم استاد شاعر اختر جاوید کو غواص قریشی ایوارڈ ان کے داماد کے سپرد کیا گیا۔ جمال احمد جمال کو پریم جی عظیم ایوارڈ، اسماعیل پرواز کو جوہر غازی پوری ایوارڈ ، محترمہ نازیہ الہی خان کو ویمنس پاور ایوارڈ ، محترمہ قمر سرور(ممبئی) کو پروین شاکر ایوارڈ ،ڈاکٹر مشتاق انجم کو حامی گورکھپوری ایوارڈ ، عثمان جاوید کو ملا محمد جان ایوارڈ ، ڈاکٹر گردھر رائے کو ہر بنس رائے بچن ایواڈ ، پروفیسر ڈاکٹر اے علیم کو ڈاکٹر شیتل گھوش ایوارڈ ، عبدالسلام خان کو عبدالکلام آزاد ایوارڈ ، محترمہ ریحانہ خاتون کونسلر وارڈ نمبر 44 (کولکاتا) کو سوشل ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔دوسرا دور محفل مشاعرہ جسکا آغاز بیرونی و مقامی شعراءحضرات کے ہمراہ ہوا جسکی صدارت بین الاقوامی شہرت یافتہ باکمال شاعر حبیب ہاشمی نے کی اور نقابت کے فرائض پوری توانائی کے ساتھ ہردلعزیز خوش فکر شاعر ضمیر یوسف نے انجام دئے،محفل مشاعرہ جن کے نام سے منسوب تھا وہ تھے منور رانا جو وقت مقررہ پر تشریف لائے جن کے انے سے محفل کی زینت بڑھی شعراءو سامعین حضرات کو قلبی سکون ملا سبھوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا جسمانی علالت و کمزوری کی وجہ کر وہ اسٹیج پر سارے شعراء کے درمیان ایک خوبصورت سی صوفے پر جلوہ افروز رہے جو مشاعرے کی کامیابی کی دلیل تھی ای ٹی اردو کے اہل کار جنہوں نے مستعدی سے پورے پروگرام کا لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جس پر ادارہ کے کارکنان نے ان کا شکریہ ادا کیا۔مشاعرے کا آغاز حمدپاک سے معروف شاعر جناب بے غم وارثی نے اپنی مترنم آواز سے کیا جس سے محفل میں سماں سا بندھ گیا یکہ بعد دیگرے جن شعراءحضرات نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ان میں جناب جمال احمد جمال ، احمد معراج ، کامران اعظمی ،عرفان بنارسی ، فروز آختر ،اسماعیل پرواز ، مشتاق انجم ،فراغ رہوی ،کلیم حاذق ،دائم غواصی ، ارم انصاری ، آتش رضا ، بسمل یوسفی ،ریحانہ نواب ،قمر سرور ، عروسہ عرشی ، گردھر رائے ، نند لال روشن ، حلیم صابر ، حامد بھوشاولی ، سحر مجیدی قابل قدر ہیں۔اخیر میں استاذالشعرا منور رانا صاحب کو نقیب مشاعرہ نے ادب و احترام سے دعوت سخن دی اور تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا منور رانا جن کی شاعری کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا ہے اور لوگ جنہیں دیکھنے اور سننے کو بے قرار رہتے ہیں مائک پر تشریف لائے اور اپنے کلام بلاغت سے سامعین کا دل جیت لیا ان کے ایک ایک شعر پر سامعین نے دادوتحسین کے پھول برسائے جن میں ان کا یہ شعر مقبولیت کا حامل ہے ملاحظہ کریں۔٭میں دہشت گرد تھا مرنے پہ بیٹا بول سکتا ہے٭حکومت کے اشارے پر تو مردا بول سکتا ہے۔٭بہت سی کرسیاں اس ملک میں لاشوں پہ رکھی ہیں
یہ وہ سچ ہے جسے جھوٹے سے جھوٹا بول سکتا ہے٭جسے سامعین نے ان کی خوب سراہنا کی اور داد و تحسین سے سرفراز کیا اور ان کی طویل عمری کے ساتھ حسن و صحت کی دعائیں بھی دیں۔پروگرام کا اختتام 3 بجے نہایت ہی خوشگوار ماحول میں ہوا۔