اردو صرف ادب کی ہی نہیں بلکہ سائنس اور سماجی علوم کی بھی زبان ہے:ڈاکٹر محمد اسلم

حیدرآباد، 16فروری (پریس نوٹ) عثمانیہ یونیورسٹی نے اپنے قیام یعنی 1918 سے ہی مختلف علوم میں اردوکے ذریعہ تعلیم دی۔ یہاں تک کہ میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے کورس بھی اردو میں پڑھائے جاتے تھے اور ان کے لیے اردو میں بڑی تعداد میں کتابیں تیار کی گئیں۔ اردو یونیورسٹی نے وہاں سے اپنا سفر شروع کیا جہاں جامعہ عثمانیہ کا اردو ذریعہ تعلیم کا سفر رک گیا تھا۔ اب اردو یونیورسٹی میں ایک وقفے کے بعد سائنس اور دیگر علوم کی تعلیم اردو میں دی جارہی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار آج پروفیسر ایس راما چندرم‘ وائس چانسلر‘ عثمانیہ یونیورسٹی نے اردو یونیورسٹی میں منعقدہ اردو سائنس کانگریس 2017 کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔ اس دو روزہ قومی اردو سائنس کانگریس کا اہتمام اردو مرکز برائے فروغِ علوم کی جانب سے کیا جا رہا ہے ۔ جس میں ملک بھر سے70 سے زیادہ سائنس کے ماہرین ، مصنفین ، سائنس داں ، مترجمین، اساتذہ اور صحافی شرکت کر رہے ہیں ۔ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ اردو کا سرمایہ اردو یونیورسٹی اور شہر حیدرآباد میں محفوظ رہے گا۔ اردو سائنس کانگریس کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ اُردو والوں میں بیداری لائی جائے۔ انھیں احساس دلایا جائے کہ اردو صرف ادب کی زبان نہیں ہے، یہ سائنس اور سماجی علوم کی بھی زبان ہے۔ اردو یونیورسٹی کا اہم کام اردو میں علوم کا فروغ ہے۔یونیورسٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اسی طرز پر سماجی علوم کی کانگریس بھی منعقد کی جائے گی نیز اردو میں سائنسی اور سماجی علوم کے دو حوالہ جاتی مجلے بھی شائع کیے جائیں گے۔ مہمانِ اعزازی پروفیسر شمس الاسلام فاروقی،سابق پرنسپل سائنٹسٹ‘ انڈین ایگریکلچر ل ریسرچ انسٹیٹیوٹ، دہلی نے کہا کہ شہر حیدرآباد اردو زبان کا گہوارہ رہا ہے۔ اردو میں سائنسی ادب کی تخلیق وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب اردو میں سائنس پر لکھنا بیکار محض سمجھا جارہا تھا، انجمن فروغ سائنس کا قیام، ڈاکٹرمحمد اسلم پرویز کا عظیم کارنامہ ہے۔ ماہنامہ” سائنس“ کے اجرا کے وقت ہم سب لوگوںیہ خوف دامن گیر تھا کہ اس رسالے کے لےے لکھنے والے اور اس کے مضامین پڑھنے والے ملیں گے یا نہیں۔ لیکن اس کے پہلے شمارے کی ہی اتنی پذیرائی ہوئی کہ پہلا شمارہ دوبارہ شائع کرنا پڑا۔ آج اردو میں سائنسی موضوعات پر لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ اردو سائنس کانگریس کا انعقاد ڈاکٹرمحمد اسلم پرویز کا ایک اور شاندار کارنامہ ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اردو میں سائنسی موضوعات پر مضامین اور کتب کے سرمائے میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا رہے گا ۔
ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی، سابق ڈپٹی ڈائرکٹراورصدر شعبہ¿ نباتی کیمیا، نیشنل بوٹانیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، لکھنو¿ نے بحیثیت مہمانِ اعزازی اردو سائنس کانگریس میںاظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہندوستان میں اردو والوں کو ترقی کرنی ہے اورملک میں اپنا مقام بنانا ہے تو انھیں سائنس میں ترقی کرنی ہوگی اور سائنسی مزاج اپنانا ہوگا۔ اگرہماری سوچ سائنسی بنیادوں پرمبنی ہوتی تو زبان،مذہب، ملک، عقیدہ اور علاقہ کے نام پر جھگڑے نہیں ہوتے۔ ہمارے سماج میں سائنسی مزاج کی ضرورت ہے، اس کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔
اس موقع پر سائنس کے میدان میں نمایاں خدمات کے لیے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی، پروفیسر شمس الاسلام فاروقی، عبدالمعز شمسی، پروفیسر ظفر احسن، جناب ریحان انصاری، سکندر، ڈاکٹر جاوید احمد کامٹی، سید عبدالوہاب اور سید خواجہ معز الدین (عابد معز) کو نشان آزاد یادگاری تحفہ پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ سائنسی موضوعات پر لکھنے والی اہم شخصیات کو توصیف نامے بھی پیش کیے گئے۔ ڈاکٹر شکیل احمد، پر ووائس چانسلر نے ابتداءمیں خیر مقدم کیا ۔ اردو سائنس کانگریس کے انعقاد پر ڈاکٹر عابد معز اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دی۔ انہوں نے مہمانوں کا تعارف بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر عابد معز، کنسلٹنٹ،اردو مرکز برائے فروغِ علوم و کنوینر قومی اردو سائنس کانگریس 2017 نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اردو میں علوم کا ماضی جامعہ عثمانیہ سے وابستہ رہا ہے اور مستقبل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے منسلک ہے ۔اردو یونیورسٹی اورجامعہ عثمانیہ علوم کے فروغ کے لےے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرکے کام کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر آمنہ تحسین، ڈائرکٹر انچارج مرکز برائے مطالعاتِ نسواں نے بخوبی کارروائی چلائی۔ سید عبدالرشید، پی ایچ ڈی اسکالر اسلامک اسٹڈیز نے قرا¿ت کلام پاک اور ترجمہ پیش کیا۔ حیدرآباد میں منعقد ہونے والے اس پہلے قومی اردو سائنس کانگریس کے افتتاحی اجلاس میں ملک بھر سے آئے مندوبین کے علاوہ طلبہ، اساتذہ ، غیر تدریسی عملہ اور شہر کے معززین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔