میانمار: فورسز روہنگیا اقلیت کیخلاف انسانیت سوز جرائم میں ملوث

اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ اہلکار ینگہی لی نے کہا ہے کہ میانمار میں فوج اور پولیس ملک کی روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف ‘انسانیت سوز جرائم’ کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ میانمار میں حقوقِ انسانی کی صورتحال پر اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی نے کہا کہ وہ پیر کو اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی انکوائری کمیشن کو تحقیقات کے لیے باضابطہ درخواست بھی دے رہی ہیں۔ میانمار میں ایک سال سے برسرِاقتدار جماعت کی قائد آنگ سان سوچی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ میانمار کا داخلی معاملہ ہے اور اس حوالے سے الزامات بڑھا چڑھا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔ ینگہی لی کا کہنا ہے کہ انھیں ان الزامات کی تفتیش کے لیے میانمار کے شورش زدہ علاقے تک آزادانہ رسائی نہیں دی گئی تاہم بنگلہ دیش میں موجود پناہ گزینوں سے بات کر کے انھیں معلوم ہوا ہے کہ صورتحال ان کی توقعات سے کہیں بدتر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میں کہوں گی انسانیت کے خلاف جرائم سرزد ہوئے ہیں۔ یقیناً میانمار کی فوج، سرحدی محافظوں اور پولیس کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم کیے گئے ہیں۔’ ان کہنا تھا کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ظلم و زیادتی ‘نظام کا حصہ’ ہے اور آنگ سان سوچی کی حکومت کو اس کی کچھ ذمہ داری تو لینا ہوگی۔ ‘آخرِکار ان کی حکومت ہے، ایک عوامی حکومت جسے اپنی عوام پر تشدد کے خوفناک واقعات اور انسانیت سوز جرائم پر جواب دینا ہوگا۔’ یاد رہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں بھی اقوام متحدہ نے روہنگیا اقلیت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی بنا پر آنگ سان سوچی کی قیادت میں قائم میانمار حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انسانی حقوق کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے ادارے کا کہنا تھا کہ اسے ہر روز ریپ، قتل اور دیگر زیادتیوں کے بارے میں رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں لیکن آزاد مبصرین کو ان جرائم کی تحقیقات سے روکا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی زیادہ تر آبادی ریاست رخائن میں مقیم ہے اور فوج کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس ریاست میں انسدادِ دہشت گردی کی مہم شروع کی تھی تاہم اس کارروائی کے آغاز سے اب تک 75 ہزار افراد ملک چھوڑ کر بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔ بنگلہ دیش میں کیمپوں میں مقیم ان روہنگیا باشندوں نے بات کرتے ہوئے برمی سکیورٹی فورسز پر شہریوں کو گولیاں مارنے، اغوا کرنے اور نوجوان لڑکیوں کو ریپ کرنے کے الزامات لگائے۔ ان پناہ گزینوں کی بہت سی کہانیوں کی تصدیق سیٹیلائٹ اور ویڈیو ثبوتوں سے کی گئی ہے۔ آنگ سان سو چی نے 15 سال کی نظربندی کاٹنے کے بعد 2015 میں عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ میانمار کے قانون کے تحت وہ ملک کی صدر نہیں بن سکیں تاہم انھیں ملک کا ‘ڈی فیکٹو’ حکمران سمجھا جاتا ہے۔ ان کی جماعت کے ترجمان ون ٹین نے کہا کہ موجودہ حالات میں آنگ سان سو چی کے پاس فوج کو روکنے کی طاقت نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام پر ان کاکہنا تھا کہ سینکڑوں روہنگیاؤں کی ہلاکت کی خبریں ‘بڑھا چڑھا کر’ پیش کی گئی ہیں اور بعض اوقات ‘اقوامِ متحدہ بھی غلط ہوتی ہے۔’