ہندوستان میں فارسی، ریوینیو کے ساتھ علوم کی بھی زبان رہی

حیدرآباد، 21 مارچ (پریس نوٹ) ہندوستان کے طول و عرض میں فارسی علوم کی زبان رہی ہے۔ اس میں بطور خاص طب، نجوم، نباتیات، حیوانیات اور ان جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ بے شمار ریوینیو ریکارڈس بھی ملتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز اسکالر پروفیسر چندر شیکھر، شعبہ¿ فارسی، دہلی یونیورسٹی ، نے کیا۔ وہ آج شعبہ فارسی، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی اور قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان نئی دہلی، کے اشتراک سے منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی سمینار ©”سائنسی علوم و ٹکنالوجی کے ہند-فارسی ماخذ (دکن کے فارسی ادب کے خصوصی حوالے سے)“ میں کلیدی خطبہ دے رہے تھے۔ ڈاکٹر شکیل احمد، پرو وائس چانسلر نے صدارت کی۔پروفیسر چندر شیکھر نے کہا کہ پروفیسر عرفان حبیب کے اٹلس (Atlas) میں ریوینیو کے نقطہ¿ نظر سے مختلف علاقوں کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ان میں فصلوں میں اضافہ کرنے کے طریقے، آفاتِ سماوی ، کیڑوں، چڑیوں وغیرہ سے ہونے والے نقصان اور ان سے محفوظ رہنے کے طریقوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مغلوں کے دور میں شیرازی حکماءنے ابوسینا کی القانون اور عربی میں موجود طب اسلامی پر توجہ دی اور اپنے تجربوں کی روشنی میں انہیں آگے بڑھایا۔ طبِ شفاعِ محمود اور دیگر کتب میں فبریزو اور دیگر اسکالرس نے اسے نوٹ کیا ہے۔ پروفیسر چندر شیکھر نے کہا کہ بیاض خوشبوئی جس کا نسخہ برٹش لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس میں مختلف عطروں کی تیاری کے طریقے درج ہیں۔ قیمتی پتھروں جیسے زمرد، یاقوت، مروارید، لعل وغیرہ کا ذکر جواہر ہمایونی اور دوسری کتابوں میں ملتا ہے۔ ڈاکٹر شکیل احمد، پرو وائس چانسلر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ فارسی ابتداءہی سے علوم کی زبان رہی ہے۔ اس میں مختلف زبانوں سے کیے گئے ترجمے افراط میں ملتے ہیں۔ ہندوستان میں بطور خاص سنسکرت میں موجود کتابوں کے فارسی ترجمے کیے گئے۔ دکن میں نظام کے دور میں بھی اس پر عمل درآمد ہوا۔ لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ فارسی جاننے والوں کی گھٹتی ہوئی تعداد کے باعث ان کتب سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ شعبہ¿ فارسی کی جانب سے کی گئی اس طرح کی کاوش یقینا ثمر آور ثابت ہوگی۔ پدم شری پروفیسر محمد عبدالوحید، سابق ڈائرکٹر، سنٹرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف یونانی میڈیسن، حیدرآباد، نے اپنے خطاب میں کہا کہ 1724 سے 1824 تک کے دور تقریباً ایک کروڑ نسخے ملتے ہیں جو روز مرہ زندگی، سائنس، ٹکنالوجی اور دیگر موضوعات پر لکھے گئے۔ انہوں نے بطور خاص ابن بیطار کی ادویہ سازی اور اس پر اس کی تحقیق پر توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ اس نے تحقیق کے ذریعہ امراض کی نشانیاں اور دواﺅں سے ہونے والے ری ایکشن پر توجہ دلائی۔ اس کے علاوہ کئی کتابوں میں دواﺅں کی عدم موجودگی میں متبادل دواﺅں کی تیاری وغیرہ پر بھی تحقیقی کام ہوا جو عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں تھا۔ آغا سید نثار حسین، رکن تلنگانہ وقف بورڈ نے کہا کہ اس طرح کے سمینار کا مقصد ثقافتی ورثہ کو یاد کرنا ہے۔ زبان جب ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ثقافت کو بھی لاتی ہے۔ اس طرح جب فارسی ہندوستان آئی وہاں، کلچر اور علوم بھی اپنے ساتھ لائی۔ انہوں نے کہا کہ فارسی میں موجود کتابوں کو ڈیجیٹلائز کرنا ضروری ہے۔ اس طرح کا کام ایران میں کرلیا گیا ہے اور ان کتابوں کو ہم ہندوستان میں انٹرنیٹ کے توسط سے دیکھ سکتے ہیں۔ ابتداءمیں پروفیسر عزیز بانو، ڈائرکٹر سمینار و صدر شعبہ¿ فارسی نے خیر مقدم کیا اور سمینار کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، شعبہ¿ فارسی نے شکریہ ادا کیا۔ ریسرچ اسکالر مقصود حسین شاہ کی قرا¿ت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔