وہ ننھا سا پودا جو شجر سایہ دار میں تبدیل ہو گیا…

کٹیہار میڈیکل کالج کے 30 سالہ جشن شباب پر
خصوصی تحریر اشرف استھانوی
کٹیہار میڈیکل کالج نے اپنے قیام کے 30 سال پورے کر لئے ہیں ۔اس دوران کئی نشیب وفراز آئے ، کئی مشکلات کا سامنا کر نا پڑا لیکن اس کے بانی احمد اشفاق کریم ہمت نہیں ہارے۔اورنا مساعد حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیااور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ تیزی سے ترقی کی راہو ں پر گامزن ہو تا گیا۔ اور اب تیس سالہ جشن شباب کے موقع پر موجود شرکا نے ان کی صلاحیت ذہانت اور دور اندیشی کا لوہا مان لیا ۔
ڈاکٹر احمد اشفاق کریم کی دور بینی، روشن ضمیری اور بلند خیالی نے محسوس کیا کہ ملت کے بچوں کا مستقبل سنوارنے اور انھیں اعلیٰ قسم کی میڈیکل تعلیم فراہم کرنے کے لیے ایک اقلیتی میڈیکل کالج کا قیام ناگزیر ہے۔ ان کے دل میں ملت کا درد، ہونہار مسلم بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی فکر اور قوم کی ترقی کا جذبہ تھا۔ چنانچہ بے سروسامانی اور وسائل کی کمی کے باوجود آپ نے یہ عزم مصمم کرلیا کہ بہار میں ایک میڈیکل کالج قائم کرنا ہے۔ ان کا یہ سنہرا خواب ۱۹۸۷ میں اُس وقت شرمندہ تعبیر ہوا، جب انھوں نے کٹیہار میڈیکل کالج و اسپتال قائم کیا۔
ؓؓؓقائد ملت شیخ طریقت امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے کٹیہار میڈیکل کالج کے قیام کے 30 سالہ جشن شباب کے موقع پر ایک پر ہجوم جلسے سے خطاب کر تے ہوئے اس کے بانی اور بہارکے سر سید احمد اشفاق کریم کی حد درجہ ستائش کر تے ہوئے کہا کہ اس ادارے نے نیک نامی حاصل کی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اب الکریم یونیور سٹی بھی ملک میں اپنی ایک منفرد شناخت بنائے گی۔ حضرت نے کہا کہ احمد اشفاق کریم نے ملک و ملت کے مستقبل کے لئے جس طرح اپنے حال کو داؤ پر لگایا اور اس میں کامیاب رہے اس کی نظیر مستقبل قریب میں نہیں ملتی۔ یہ ادارہ تیزی سے ہمہ جہت ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ یہ ملت کا بڑا سرمایہ ہے ۔ اس کا تحفظ ملت اسلامیہ کا اولین فریضہ ہے ۔
حضرت امیر شریعت نے کہا کہ عام طور پر لوگ جب منزل آ جاتی ہے تو ٹھہر جاتے ہیں ، ایسی صورت میں جمود طاری ہو جاتی ہے۔ نئی منزلوں کی تلاش اور نئی راہوں پر چلنے سے جمود طاری نہیں ہو تا ۔ انہوں نے کہا کہ احمد اشفاق کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ نئی منزلیں تلاش کر تے رہتے ہیں۔ الکریم یونیور سٹی نئی منزل کی تلاش کا ہی نتیجہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تیس سال قبل 8 مارچ 1987 کو مرد مجاہد احمد اشفاق کریم نے اس ادارہ کا بسم اللہ کیا تھا ۔ 30 سال کا عرصہ گزرتے گزرتے اس کالج نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ اس کالج کو میں نے اس وقت بھی دیکھا تھا جب پٹنہ میں اس کا آغاز ہوا تھا اور اس وقت بھی دیکھا جب اس سر زمین پر اس کا کام شروع ہوا۔ اب یہ ادارہ یونیور سٹی کی شکل لے رہا ہے ۔ رب کریم احمد اشفاق کریم کے عزم میں کامیابی عطا فرمائے۔ انشاء اللہ یہ یونیور سٹی ملک میں اپنی منفرد شناخت بنائے گی ۔
بہار کے گوشے گوشے سے کثیر تعداد میں ہر شعبہ حیات کے لوگوں بالخصوص دانشوروں نے اس تاریخ ساز موقع پر شرکت کی اور جشن تیس سالہ کے گواہ بنے۔ اس موقع پر جن اہم لوگوں نے شرکت کی ، ان میں انسٹی چیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز بہار چیپٹر کے چیئر مین سید فضل رب، جمعیۃ علما بہار کے جنرل سکریٹری الحاج حسن احمد قادری، معروف دانشور فیاض حالی، پٹنہ ہائی کورٹ کے اڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سید خور شید عالم، سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی، اسلم انصاری ایڈو کیٹ وغیرھم کے نام قابل ذکر ہیں۔
رات میں ایک شاندار کل ہند مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیاجس میں نامی گرامی شعرا کرام نے شرکت کی ۔ مشاعرے کی صدارت معروف شاعر منور رانا نے کی او ر نظامت کے فرائض منصور عثمانی نے انجام دیئے۔ مشاعرہ بہت ہی کامیاب اور تاریخ ساز رہا ۔ صبح کے دو بجے تک ہزاروں کی تعداد میں موجود محبان اردو شعرا کے کلام سے محظوظ ہو تے رہے۔
بہار کی سرزمین نے ایک سے ایک لعل و گہر پیدا کیے ہیں، جنھوں نے ملک و بیرون ملک میں اپنی صلاحیتوں اور خدمات کا لوہا منوایا ہے۔ ان میں علماء، فقہاء، صوفیاء، ادباء، شعراء، اطباء، ڈاکٹر، انجینئر، سیاستداں اور سماجی و تعلیمی خدمتگار سبھی شامل ہیں۔ ایسے ہی لعل و گہر میں بہار کے سرسید اور مشہور سماجی و تعلیمی خدمتگار احمد اشفاق کریم بھی شامل ہیں، جنھوں نے اپنی محنت، خوداعتمادی، دوربینی اور بلند پروازی کی بدولت میڈیکل ایجوکیشن کے شعبے میں سنگ میل قائم کرتے ہوئے بہار کا نام روشن کیا ہے۔
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
واقعی یہ تینوں خوبیاں قدرت نے اشفاق کریم جیسی شخصیت میں جمع کر دی ہیں۔ آزادی کے وقت تقسیم ہند کے نتیجہ میں جب پورا ملک شدید بے چینی اور کرب سے دوچار تھا، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان ہجرت کر گئی تھی۔ جو بچ گئے تھے وہ فرقہ وارانہ فسادات کی مار جھیل رہے تھے، مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔ ان کی کشتی مصائب کے طوفان میں ہچکولے کھا رہی تھی، ہر طرف یاس و الم کا ماحول تھا، مسلمان اس قدر ٹوٹ گئے تھے کہ انھیں ان حالات سے نکلنے میں برسوں بیت گئے، بہار جو بدقسمتی سے تعلیمی اور معاشی پسماندگی کا شکار رہا ہے، بہتر، اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے حصول کے لیے انھیں ملک کے دوسرے شہروں کا رُخ کرنا پڑ رہا تھا، احمد اشفاق کریم کی دور بینی، روشن ضمیری اور بلند خیالی نے محسوس کیا کہ ملت کے بچوں کا مستقبل سنوارنے اور انھیں اعلیٰ قسم کی میڈیکل تعلیم فراہم کرنے کے لیے ایک اقلیتی میڈیکل کالج کا قیام ناگزیر ہے۔ ان کے دل میں ملت کا درد، ہونہار مسلم بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی فکر اور قوم کی ترقی کا جذبہ تھا۔ چنانچہ بے سروسامانی اور وسائل کی کمی کے باوجود آپ نے یہ عزم مصمم کرلیا کہ بہار میں ایک میڈیکل کالج قائم کرنا ہے۔ ان کا یہ سنہرا خواب ۱۹۸۷ میں اُس وقت شرمندہ تعبیر ہوا، جب انھوں نے کٹیہار میڈیکل کالج و اسپتال قائم کیا۔
جس وقت کٹیہار میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس وقت کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ آئندہ چند ہی برسوں میں یہ بہار کے اہم میڈیکل کالجوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ آج یہ کالج بہار کے مسلم طلبہ کے امیدوں کا مرکز اور طبی خدمات کا اہم مرکز تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کالج میں تمام ضروری میڈیکل خدمات اور جدید آلات کے ساتھ ایم. آر. آئی جانچ کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ یومیہ ۶۰۰ مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ ہر سال دو سو طلبہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر مختلف شہروں اور گاؤوں میں علاج و معالجہ کر کے خدمت خلق کا فریضہ ا نجام دیتے ہیں۔ یہاں سے اب تک ۲۵ بیچ فارغ ہو چکے ہیں۔ دہلی اور پٹنہ کے بڑے بڑے اسپتالوں میں یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ طبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ طویل قانونی لڑائی کے بعد سپریم کورٹ نے ۲۷؍ فروری ۱۹۹۶ کو کٹیہار میڈیکل کالج و اسپتال کو مستقل الحاق دینے کا فیصلہ صادر کر دیا ہے، جس کے نتیجہ میں ایم. سی . آئی نے اسے منظوری دے دی ہے اور بی. ا ین. منڈل یونیورسٹی مدھے پورہ نے مستقل طور پر الحاق دے دیا ہے۔ گذرتے دن کے ساتھ اس کا معیار و مقام بھی بلند ہوتا جا رہا ہے اور جدید ترین سہولتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ بلا شبہ احمد اشفاق کریم کا یہ تاریخی کارنامہ ہے۔ وہ جس خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں اور جس فکر و انداز سے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں، ان کے حق میں دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور بیساختہ زبان پر یہ مصرعہ آجاتا ہے ع
جو تھا مشکل اُسے آسان بنایا تم نے

مرحبا! کام بڑا کر کے دکھایا تم نے
احمد اشفاق کریم کو قدرت نے ذہانت، صلاحیت ، حسن سلیقہ اور حسن انتظام کا وافر حصہ عطا فرمایا ہے، جس کا وہ بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ مشکل حالات اور مخالف ماحول میں بھی وہ کام کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس لیے وہ مخالفتوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے مشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس راہ میں انھیں مصائب و مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ قدم قدم پر دشواریاں جھیلنی پڑیں، دشمنوں کے وار سہے، مخالفوں کے ہدف تنقید بنے، عدالت تک کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ لیکن حوصلہ مند، باہمت اور مرد آزادی نے ہمت نہیں ہاری، حوصلہ شکن نہیں ہوئے، پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا، قدم آگے بڑھاتے رہے۔ بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور آج وہ اس مقام پر ہیں کہ ان کی خدمات کے تذکرے عام ہیں، کارناموں کا ذکر خیر ہوتا ہے اور لوگ قدر و منزلت کی نگاہ سے انھیں دیکھتے ہیں۔
کٹیہار میڈیکل کالج احمد اشفاق کریم کی زندگی کا عنوان بن گیا۔ اس ادارہ سے ان کی زبردست سماجی اور عوامی شناخت بنی۔ انھوں نے بھی کٹیہار میڈیکل کالج و اسپتال کی ترقی و کامیابی کے لیے اَنتھک محنتیں کیں، رات و دن سرگرم رہے۔ اپنے خونِ جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا۔ کٹیہار شہر کے کریم باغ میں ۷۵ ایکڑ زمین پر کے. ایم. سی. ا یچ قائم کیا۔ ۱۵ لاکھ اسکوائر فٹ کے رقبہ میں کالج و اسپتال کی عالیشان و پُرشکوہ عمارت تعمیر کی۔ یہ پُرکشش اور جاذب نظر عمارت احمد اشفاق کریم کے حسن انتظام اور سلیقہ مندی کی گواہ ہے۔
اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگاکہ کوسی کمشنری میں صوبائی اور مرکزی سطح پر ا قلیتی میڈیکل کالج قائم کرنے کی کوشش بارہا کی گئی لیکن بارآور ثابت نہ ہوئی۔ ۱۹۷۷ء میں آنجہانی کرپوری ٹھاکر نے اپنے دورِ اقتدار میں بہار کی طبی خدمات کے تفصیلی جائزہ کے لیے ایک کمیشن قائم کیا۔ کمیشن نے پورے بہار کے طبی مراکز اور میڈیکل تعلیمی اداروں کا سروے کیا۔ کمیشن نے تمام تفصیلات اکٹھا کرنے اور بھرپور تجزیہ کرنے کے بعد حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ سفارش کی کہ کوسی کمشنری میں لوگوں کو غربت، مفلسی، بے روزگاری اور پسماندگی کے سبب علاج و معالجہ میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا پٹنہ کے این. ایم. سی. ایچ کو کٹیہار ضلع میں منتقل کر دیا جائے۔ کمیٹی کی سفارشات سردخانے میں ڈال دےئے گئے، اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی کو بھی اپنے دورِ اقتدار میں کوسی کے علاقے کی پسماندگی پر سخت تشویش ہوئی اور طبی تعلیم کا انتظام کرنے کا فیصلہ کیا۔ سال ۱۹۸۴ میں راجیو گاندھی نے ہیلتھ ایجوکیشن کی نئی پالیسی وضع کی، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پورنیہ یا کٹیہار میں میڈیکل کالج و اسپتال قائم کیا جائے۔ مگر مرکز کی راجیوگاندھی حکومت بھی اپنا فیصلہ نافذ العمل نہیں کر سکی اور اس طرح کوسی میں میڈیکل کالج و اسپتال کے قیام کا دیرینہ خواب پورا نہیں ہوسکا۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ اور ملک کے وزیر اعظم کی خصوصی دلچسپی اور ہدایات کے باوجود بھی کچھ نہ ہو سکا۔ لیکن اس مشکل اور اہم ترین کام کو، جسے ریاستی اور مرکزی سرکار بھی انجام نہ دے سکی، احمد اشفاق کریم نے انجام دیا۔ انھوں نے کٹیہار میڈیکل کالج و اسپتال قائم کر کے ایک عظیم الشان تعلیمی و طبی کارنامہ انجام دیا ہے۔ ان کا یہ مثالی کارنامہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ محسن قوم و ملت جناب احمد اشفاق کریم نے یقیناًبہار کے سرسید ہیں، جنھوں نے اپنے فکر و عمل سے تاریخ لکھی ہے۔
احمد اشفاق کریم ایک صالح، باکردار اور باعمل انسان ہیں۔ زندگی کے پس منظر کا بیدار مغزی سے جائزہ لیتے ہیں، کالج کی تعمیر و ترقی، بجٹ کی تیاری، ورکشاپ اور سمیناروں کا اہتمام، مہمانوں کی مدارات، سیاسی و سماجی لوگوں سے ملاقات، غرض یہ کہ ہر کام کو یکساں ذوق و شوق اور ترتیب کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ انھوں نے بہار کے مسلمانوں خصوصاً کوسی کمشنری کے مسلمانوں کی ناخواندگی کو نئی تعلیم، نئے نقطۂ نظر اور حکمت و تدبر سے دور کرنے کی کوشش و جدوجہد کی۔ کالج کے قیام کے لیے انھوں نے کوسی کمشنری میں واقع ضلع کٹیہار کا انتخاب کیا۔ آپ چاہتے تو اس کو اپنے آبائی ضلع ویشالی میں بھی قائم کر سکتے تھے، مگر انھوں نے اس کا انتخاب بڑی حکمت و بصیرت سے کیا۔ یہ علاقہ تعلیمی، صنعتی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی ہر اعتبار سے خستہ اور کمزور ہے۔ یہ ہمیشہ حکومت کی غفلت اور بے توجہی کا شکار رہا۔ ۳۰۰ کیلومیٹر کے دائرے میں کوئی میڈیکل کالج یا اسپتال نہیں تھا۔ اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو کٹیہار ان کا حسن انتخاب اور ان کی دور اندیشی، بلند نظری اور وسعت قلبی کا مظہر ہے۔
کٹیہار میڈیکل کالج کے بانی احمد اشفاق کریم قوم و ملت کے سچے ہمدرد، مخلص اور غمخوار ہیں۔ سیاست کے نشیب و فراز سے واقف اور قومی و بین الاقوامی حالات سے آگاہ۔ ایسانہیں ہے کہ انھوں نے کٹیہار میڈیکل کالج کھول دیا اور ساری توجہ و ذہانت اسی پر صرف کر رہے ہیں اور بس۔ نہیں بلکہ مختلف جہتوں سے قومی، ملّی، سماجی اور فلاحی کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ دینی و ملّی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ علماء و بزرگوں کے قدرداں احمد اشفاق کریم کی ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئی، ان کی پرورش و پرداخت دینی ماحول میں ہوئی ہے، جس کے اثرات ان کی زندگی میں نمایاں ہیں۔ علماء کی قدر و منزلت، دینی اداروں سے تعلق، ملّی تنظیموں سے وابستگی، دینی خدمات سے ہم آہنگی یہ وہ خوبیاں ہیں، جو ان کو اسی راہ سے ملی ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت میں خاندانی ماحول اور دینی اداروں کا اہم کردار رہا ہے۔ موصوف اپنے عمل اور کام کو سود وزیاں کے پیمانے سے نہیں تولتے بلکہ ایمان و یقین کے ترازو سے ناپتے ہیں۔ اسی خوبی ا ور صلاحیت نے ان کو ہر دلعزیز بنایا اور ہر مکتب فکر کے لوگوں میں مقبولیت عطا کی ہے۔
احمد اشفاق کریم نے ویشالی ضلع کے پاتے پور بلاک کے ایک چھوٹے سے گاؤں نندا میں آنکھیں کھولیں۔ ان کا خاندان مہذب اور شریف مانا جاتا تھا۔ ان کے والد محترم حاجی احمد کریم علاقے کے معزز لوگوں میں شمار تھے۔ تہذیب و شرافت ان کو خاندانی وراثت میں ملی ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی۔ مگدھ یونیورسٹی سے فارسی میں پوسٹ گریجویٹ کیا اور اپنی بے پناہ محنت، خداداد صلاحیتوں اور خوبیوں سے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔
(۱) میرے اور اُن کے دیرینہ اور قدیم روابط رہے ہیں۔ ان کو کالج کے ابتدائی ایام میں دیکھا کہ وہ کس طرح کالج کی ترقی اور بہتری کے لیے تگ و دَو کرتے تھے، رات اور دن کے آرام کو تج کر صرف اور صرف اس کی فکر اور کوشش کرتے کہ کالج کا معیار اونچا ہو، جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہو، ہر طرح کے وسائل و ذرائع ہوں۔ ان دنوں میں نے ان کا بھرپور قلمی تعاون کیا، مفید مشورے دےئے اور ضرورت کے وقت بہت سارے امور میں ساتھ ساتھ رہے۔
(۲) احمد اشفاق کا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ا ن کا مشن بہت بڑا ہے، وہ حکمت و دانشمندی سے نئی نسل کے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ا پنے آبائی وطن نندا میں ایک بڑا دینی ادارہ چلا رہے ہیں، جس سے قوم کے بچے مستفیض ہو رہے ہیں۔ عنقریب الکریم یونیورسٹی کے نام سے بہار میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے قیام کا پروگرام ہے۔ حکومت سے اس کی منظوری بھی مل چکی ہے۔
(۳) کالج کا سالانہ بجٹ بہت بڑا ہے۔ ہر سال تقریباً تین کروڑ روپے کالج کے رکھ رکھاؤ اور اساتذہ کی تنخواہ پر صرف ہوتے ہیں۔ اور بڑی بات تو یہ ہے کہ سارے کام اپنے معینہ وقت پر ہی انجام دےئے جاتے ہیں۔ اساتذہ کی سیلری تک وقت پر ادا کی جاتی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ کیٹہار میڈیکل کالج کی طرح مجوزہ الکریم یونیورسٹی بھی بہت جلد حقیقت کا جامہ زیب تن کر کے سامنے آئے گی اور بہار کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں اہم کردار نبھائے گی۔
کرب مظلوم اقلیت کا اپنے دل میں لئے
رکھی بنیاد میڈیکل کی نئے عزم کے ساتھ
دیکھ پھل پھول رہا ہے بڑی تیزی سے
ہر لب پہ رقص کناں ہے یہ بات
ہم ترے جذبے کو تہہ دل سے کرتے ہیں سلام
مرحبا کام بڑا کر کے دکھایا تم نے
جو تھا مشکل اسے آسان بنایا تم نے
***