لیباریٹری میں دنیا کے پہلے ’مصنوعی ایمبریو‘ کی تخلیق

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے چوہوں کے ’سٹیم سیلز‘ کا استعمال کرتے ہوئے پہلی مرتبہ ’مصنوعی ایمبریو‘ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔یونیورسٹی آف کیمبرج کی ٹیم نے دو طرح کے سٹیم سیل اور تھری ڈی ڈھانچے کا استعمال کرتے ہوئے چوہے کے قدرتی ایمبریو سے ملتا جلتا ڈھانچہ بنایا۔اس سے قبل کی جانے والی کوششوں میں سائنسدنوں کو بہت محدود کامیابی حاصل ہوئی تھی کیونکہ ایمبریو کی ابتدائی بناوٹ کے لیے مختلف قسم کے خلیوں کے درمیان رابطوں کی ضرورت ہوتی ہے۔محققین کو امید ہے کہ ان کا کام بانجھ پن کے علاج میں مدد فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ اس سے ایمبریوز کی ابتدائی بڑھوتری پر بھی روشنی ڈالی جا سکے گی۔تاہم انسانی ایمبریوز پر تجربات سختی سے منع کیے گئے ہیں اور 14 دنوں سے زیادہ کے ایمبریوز پر تجربات پر پابندی ہے۔تحقیقاتی ٹیم نے جس کا یہ کام جریدے سائنس میں شائع ہوا، مصنوعی ایمبریو کو ایمبریونک سٹیم سیلز اور ان سٹیم سیل ہی کی دوسری قسم کی مدد سے بنایا ہے جس سے ’پلیسنٹا‘ بنتا ہے۔نامہ نگار میتھیو ہل کے مطابق ٹیم کی سربراہ پروفیسر میگڈالینا زینریک گوئٹز کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے تھے کہ اسے بنانے کے لیے مختلف قسم کے خلیوں میں ربط اہم ہے، لیکن جو چیز ہمارے کام سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان خلیوں میں حقیقی شراکت ہے اور یہ ایک دوسرے کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘تاہم محققین کا کہنا ہے کہ ان کے مصنوعی ایمبریو کا صحت مند بچے میں تبدیل ہونا مشکل ہے کیونکہ اس کے لیے ممکنہ طور پر تیسری طرح کے سٹیم سیل کی ضرورت ہوگی جو کہ نشوونما فراہم کرنے والی زردی کی تھیلی میں بنتے ہیں۔محققین کی اسی ٹیم نے حال ہی میں ایک ایسی تکنیک بنائی تھی جس کے تحت برطانیہ میں 14 دنوں کی قانونی حد کے اندر ہی لیبارٹری میں بلاسٹو سیسٹ بنائے جا سکتے ہیں۔اگر یہ ٹیم کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے 14 دنوں کی قانونی پابندی کے بعد بھی ایمبریو پر تجربات کرنے کے دروازے کھل جائیں گے۔